بنگلہ دیش کا انڈیا سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ

‌بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹریبونل نے ہمسایہ ملک انڈیا سے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد پر ’قتل عام‘ کا الزام لگاتے ہوئے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کے زیر قیادت ہفتوں جاری رہنے والے. خونی مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر پانچ اگست کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا فرار ہو گئی تھیں۔

بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے اتوار کو صحافیوں کو بتایا: ’چونکہ مرکزی مجرم ملک سے فرار ہیں. اس لیے. ہم انہیں بنگلہ دیش واپس لانے کے لیے. قانونی کارروائی شروع کریں گے۔‘

یہ وہی آئی سی ٹی ہے جسے شیخ حسینہ نے خود 2010 میں پاکستان سے 1971 کی ’جنگ آزادی‘ کے دوران ہونے والے مبینہ ’مظالم‘ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔

انسانی حقوق

شیخ حسینہ کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے. جس میں ان کے سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر حراست اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔

تاج الاسلام نے مزید کہا: ’بنگلہ دیش کا انڈیا کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ ہے جس پر 2013 میں اس وقت دستخط کیے گئے تھے جب شیخ حسینہ کی حکومت اقتدار میں تھی. اور جیسا کہ انہیں حال ہی میں بنگلہ دیش میں قتل عام کا مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے، ہم انہیں قانونی طور پر بنگلہ دیش واپس لانے. کی کوشش کریں گے تاکہ وہ مقدمے کا سامنا کر سکیں۔‘

76 سالہ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش سے فرار ہونے. کے بعد سے عوامی طور پر نہیں دیکھا گیا. اور ان کا آخری معلوم ٹھکانہ انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی. کے قریب ایک فوجی ایئربیس ہے۔ انڈیا میں ان کی موجودگی نے بنگلہ دیش کو مشتعل کردیا ہے۔

ڈھاکہ نے شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے. اور دونوں ممالک کے درمیان مجرموں کا دو. طرفہ حوالگی کا معاہدہ انہیں واپس لانے میں مدد گار ہو سکتا ہے. لیکن معاہدے کی ایک شق کہتی ہے کہ اگر جرم ’سیاسی‘ نوعیت کا ہو تو حوالگی سے انکار کیا جا سکتا ہے۔

انڈیا میں جلاوطنی

ملک کے عبوری سربراہ محمد یونس نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ شیخ حسینہ کو انڈیا میں جلاوطنی کے دوران اس وقت تک ’خاموش‘ رہنا چاہیے. جب تک کہ انہیں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے وطن واپس نہیں لایا جاتا۔

عبوری حکومت پر عوامی دباؤ ہے. کہ وہ شیخ حسینہ کی حوالگی اور ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کا جلد آغاز کرے۔

اقوام متحدہ کی ایک ابتدائی رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران 600. سے زیادہ لوگ مارے گئے. جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تعداد کا ممکنہ طور پر کم اندازہ لگایا گیا تھا۔

بنگلہ دیش نے گذشتہ ماہ ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں حسینہ واجد کے دور میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں. کی تحقیقات کا بھی آغاز کر دیا ہے۔

تبصره

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.