’ملک میں کشیدہ سیاسی صورتحال کے سبب آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر ہورہی ہے‘

معاہدے
سفارتی ذرائع کا کہنا ہےکہ آئی ایم ایف کےساتھ معاہدے سے قومی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے

سفارتی ذرائع کا کہنا ہے۔کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے سے قومی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اس معاہدے میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے۔

ڈان اخبارکی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے۔ کہ عالمی قرض دہندگان۔ خاص طور پر آئی ایم ایف پاکستان سے اس بات کی یقین دہانی کا خواہاں ہے۔ کہ ملک میں مستقبل کا سیاسی سیٹ۔ اَپ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے کسی بھی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کئی ماہ سے 7 ارب۔ ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے۔ بات چیت کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔

گزشتہ ہفتے سیکریٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے صحافیوں کو بتایا تھا۔ کہ ’آئندہ چند روز میں معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔‘، تاہم حکام کی جانب سے اس طرح کی ٹائم لائنز پہلے بھی دی جاچکی ہیں۔

پالیسی اقدامات پر عمل درآمد

ذرائع نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف کے تجویز کردہ کئی پالیسی اقدامات پر عمل درآمد کرچکا ہے۔ جس میں ٹیکسوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور شرح سود کو 25 سال کی بلند ترین سطح تک بڑھانا شامل ہے۔

تاہم مالی اور سیاسی یقین دہانیاں 2 بڑے حل طلب مسائل ہیں۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے۔ کہ پاکستان یہ یقین دہانی کروائے کہ وہ ادائیگی کے فرق کو کم کرنے کے لیے کافی مالی وسائل جمع کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض لینے والے ممالک کو ان کی ضرورت کے برعکس قرض کا صرف ایک حصہ فراہم کیا جاتا ہے۔ قرض لینے والے ممالک کو یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ان کو دیگر قرض دہندگان بھی قرض کی فراہمی کے لیے تیار ہیں۔ تاکہ اس فرق کو پورا کیا جاسکے۔

ذرائع کے مطابق چین، سعودی عرب اور دیگر شراکت داروں نے مدد کی پیشکش کی ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے۔ کہ فرق 5 ارب ڈالر ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستان کو 7 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

معاہدے

آئی ایم ایف کو اس یقین دہانی کی بھی ضرورت ہے کہ معاہدے پر دستخط کرنے والی حکومت اس پر عمل درآمد بھی کرسکتی ہے۔ لیکن خیبرپختونخوا اور پنجاب میں متوقع انتخابات اور اس کے فوراً بعد قومی انتخابات کے امکان نے آئی ایم ایف کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ کہ موجودہ حکومت اس معاہدے پر عمل درآمد کر سکے گی یا نہیں۔

ذرائع نے کہا کہ اسی وجہ سے آئی ایم ایف کو اپوزیشن قوتوں بالخصوص پی ٹی آئی کی جانب سے اس یقین دہانی کی ضرورت ہوگی۔ کہ اگر وہ موجودہ حکومت کی جگہ لے لیتے ہیں۔ تو وہ بھی اس معاہدے کا احترام کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ مستقبل کی حکومت۔ موجودہ حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرے گی۔ لیکن اپوزیشن اس مرحلے پر یہ یقین دہانی کروا کر حکومت کے لیے چیزوں کو آسان نہیں بنانا چاہتی۔ ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف کی جانب سے عموماً اپوزیشن سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ امکان ہے کہ آئی ایم ایف عمران خان سے بھی رابطہ کر سکتا ہے۔

معاہدے میں تاخیر کا کون ذمہ دار؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ موجودہ حکومت چاہتی ہے۔ کہ عمران خان ایسی کوئی یقین دہانی کروا دیں لیکن وہ اعلانیہ طور پر یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس سے اپوزیشن مزید مضبوط ہو سکتی ہے، وزیر خزانہ نے جب عمران خان کو معاہدے میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرایا تو اِس سے اُن کا یہی مطلب تھا۔

ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف اس وقت تک معاہدے کو طے کرنے کے لیے بورڈ کو کاغذات نہیں بھیج سکتا۔ جب تک مالی اور سیاسی یقین دہانیاں نہیں کروا دی جاتیں، ہاں، یہ درست ہے۔ کہ آئی ایم ایف اور پاکستان معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے۔ کہ وہ کب اس پر دستخط کریں گے’۔

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان کو توانائی کے پائیدار ذرائع تیار کرنے میں مدد کرے گا، ایک سینیئر امریکی سفیر توانائی کے مذاکرات کے لیے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔

امریکی معاون وزیر خارجہ برائے توانائی وسائل جیفری آر پیاٹ بھی پاکستان میں اپنے دو روزہ قیام (14-15 مارچ) کے دوران لاہور جائیں گے جو ’یو ایس پاکستان انرجی سیکیورٹی ڈائیلاگ‘ کے لیے امریکی وفد کی قیادت کریں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان تباہ کن سیلابوں اور توانائی کے عالمی بحران سے نکل رہا ہے۔ اسسٹنٹ سیکریٹری علاقائی توانائی کی سلامتی پر تعاون کو فروغ دے کر پاکستان کے پائیدار توانائی کے مستقبل کو یقینی بنانے کے امریکی عزم پر زور دیں گے‘۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.