اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے پیر کو اسامہ ستی کیس میں دو مجرموں کو سزائے موت جبکہ تین کو عمر قید کی سزا سنا دی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج زیباچوہدری نے پولیس کی انسداد دہشت گردی فورس کے ان پانچ برطرف اہلکاروں کو ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔
سزائے موت پانے والوں میں محمد مصطفی، محمد افتخار جبکہ عمر قید پانے والوں میں محمد شکیل، مدثر مختار اور سعید احمد شامل ہیں۔
اسامہ کے والد ندیم ستی فیصلے کے بعد کمرہ عدالت کے باہر آبدیدہ ہو گئے۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ’میرا بیٹا تو واپس نہیں آ سکتا۔ لیکن یہ فیصلہ ہم سب کی فتح ہے۔ یہ انصاف کی جیت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عدالت نے بغیر دباؤ کے بہت بڑا فیصلہ دیا۔
اسامہ ستی کے وکیل راجہ فیصل یونس نے کہا ۔’یہ وردی کی آڑ میں جرم کرنے والوں کے لیے سبق ہے کہ وہ جرم کریں گے تو سزا بھی ہو گی۔‘
مقدمے کا فیصلہ
عدالت نے دو سال اور ایک ماہ تک جاری رہنے والے مقدمے کا فیصلہ 31 جنوری کو محفوظ کیا تھا۔
یہ مقدمہ چند ماہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا جس میں عدالت نے ملزمان کی ایک اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے مقدمہ سول عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جہاں ہائی کورٹ نے دہشت گردی کی دفعات بحال کر دیں۔
اس پر ملزمان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ جہاں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا۔ اور باقی ٹرائل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں مکمل ہوا۔
2021 میں یکم اور دو جنوری کی درمیانی شب 22 سالہ اسامہ ندیم ستی اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے ۔(سابقہ کشمیر ہائی وے) ۔پر جی 10 کے اشارے سے کچھ میٹر دور۔ پولیس۔ اہلکاروں کی گولیوں کا شکار ہو کر جان گنوا بیٹھے تھے۔
دستیاب معلومات کے مطابق اسامہ ستی دوست کو یونیورسٹی چھوڑ کے اپنے گھر جا رہے تھے جب گشت کرنے والے مذکورہ پولیس اہلکاروں نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا۔
کیس کے مطابق خوف کے باعث اسامہ سری نگر پر سیکٹر جی 13 کی طرف مڑنے کی بجائے جی ٹین اشارے تک گاڑی دوڑاتے رہے جہاں پہنچ کر پولیس اہلکاروں نے گاڑی پر فائر کھول دیے۔
واقعے کی تفصيلات
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق واقعے میں پولیس اہلکاروں نے 22 گولیاں چلائیں جس میں 17 اسامہ کو لگیں۔
اسامہ کے والد نے واقعے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا۔ کہ جن اہلکاروں نے اسامہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا ان سے ایک روز قبل اسامہ کی معمولی تلخ کلامی ہوئی تھی۔ اور پولیس اہلکاروں نے اسامہ کو دھمکایا تھا۔
پولیس نے واقعے کو ڈکیٹی کی واردات ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن سوشل میڈیا پر شور اور دباؤ کے باعث ۔معاملہ چھپ نہ سکا۔
اسامہ ستی کے والد نے دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرایا۔ جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 بھی شامل کی گئی۔
اس وقت وزیر اعظم عمران خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے۔ وزیر داخلہ کو ہدایت کی تھی۔ کہ تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ دیں۔
اس پر پولیس نے معاملے کو سنجیدہ لیا۔ اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو برطرف کر کے حراست میں لینے کے بعد قانونی کارروائی شروع کی۔
ملزمان نے ابتدا میں موقف اپنایا۔ کہ سیکٹر ایچ 13 میں ڈکیٹی کی واردات کی کال آنے کے بعد انہوں نے اسامہ ستی کی گاڑی کو ڈاکوؤں کی گاڑی سمجھ کر فائر کیے کیونکہ گاڑی پولیس کے اشارے پر نہیں رکی تھی۔
کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ 13 جنوری، 2021 کو سامنے آئی۔ جس میں اسامہ ستّی کا کسی ڈکیتی یا جرم سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔
جان بوجھ کر قتل
رپورٹ کے مطابق اسامہ کو گولیاں جان بوجھ کر قتل کرنے کی نیت سے ماری گئیں۔
جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے مطابق سینیئر افسروں کو بھی واقعے سے متعلق اندھیرے میں رکھا گیا اور قتل کو چار گھنٹوں تک اسامہ کے خاندان سے چھپایا گیا۔
تحقیقات کے مطابق ڈیوٹی افسر نے جائے وقوعہ کی کوئی تصویر یا ویڈیو نہیں بنائی۔ جبکہ موقعے پر پہنچنے والے پولیس افسران نے ثبوت مٹانے کی کوشش کی۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی اور سینیئر افسران کو اندھیرے میں رکھا، مقتول کو ریسکیو کرنے والی۔ گاڑی کو بھی غلط لوکیشن بتائی جاتی رہی۔
میسر شواہد کو دیکھتے ہوئے۔ گذشتہ برس 15 اکتوبر کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔
فرد جرم عائد ہونے کے بعد 27 اکتوبر سے ۔ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔