’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کے کم عمر ترین فاتح ماینک کی انڈین میڈیا پر دھوم

’یہ سوچا تھا کہ ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ (کے بی سی) میں کبھی جانا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنا بڑا انعام جیت پاؤں گا۔‘

یہ کہنا ہے انڈیا کی شمالی ریاست ہریانہ سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ ماینک کا جو حال ہی میں انڈیا کے مقبول ٹی وی گیم شو ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ میں ایک کروڑ روپے جیت کر انڈیا کے کم عمر ترین کروڑ پتی بنے ہیں۔

ماینک آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ وہ بچوں کے لیے ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کی خصوصی قسط میں حصہ لے رہے تھے۔

ماینک امییتابھ بچن کے اس مشہورِ زمانہ ٹی وی پروگارم کے بی سی میں اب تک کے شامل ہونے والے کم عُمر ترین کنٹیسٹینٹ ہیں۔

ماینک نے بی بی سی کو بتایا کہ امییتابھ بچن چھوٹی عمر سے ہی ان کے پسندیدہ اداکار تھے اور انھیں ان سے ملنے کا بہت شوق تھا۔’جب معلوم ہوا کہ کے بی سی کھیلنے کے لیے میرا انتخاب ہو گیا ہے تو مزید خوشی ہوئی کہ ان سے ملنے جا رہا ہوں۔‘

کے بی سی

ماینک نے گیم شو میں ایک کروڑ کا انعام کیسے جیتا؟

کے بی سی گیم شو میں دلوں کی دھرکنوں کو روکنے والا مرحلہ اس وقت آیا جب ایک کروڑ کے انعام کے لیے سوال سے پہلے معروف بالی وڈ اداکار اور کے بی سی کے میزبان امیتابھ بچن کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ کہنے کا بہت کم موقع ملتا ہے کہ اگلا سوال ہونے والا ہے ایک کروڑ روپے کے لیے۔‘

انھوں نے ماینک سے ایک کروڑ روپے کے لیے سوال کیا کہ ’وہ کون سا یورپی کارٹوگرافر ہے جس کے نقشے میں نئے دریافت شدہ براعظم کو امریکہ نام دیا گیا تھا؟‘

یہ وہ سوال تھا جس نے امیتابھ بچن کے ٹیلی وژن پروگرام ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ (کے بی سی) میں شامل ’ماینک‘ کو کروڑ پتی بنا دیا۔

اس دوران ماینک کے والدین شائقین میں بیٹھے پریشان حال نظر آ رہے تھے لیکن زور زور سے تالیاں بجا کر ماینک کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔

جیسے ہی امیتابھ بچن سکرین پر سوال پڑھتے ہیں، ماینک بھی تناؤ میں نظر آتے ہیں. لیکن سوال کے اختتام تک مسکرانے لگتے ہیں۔ وہ امیتابھ بچن سے بات چیت کرتے ہوئے کہتے ہیں. کہ امریکہ کا نام اطالوی ایکسپلورر امیریگو ویسپوچی سے آیا ہے لیکن۔۔۔

امیتابھ واضح کرتے ہیں کہ سوال اس شخص کے بارے میں ہے. جس نے نقشہ بنایا تھا۔ ماینک سوال دوبارہ پڑھتے ہیں۔ ان کے والدین مزید تناؤ کی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔

لائف لائن

ماینک پہلے ہی دو ’لائف لائنز‘ ختم کر چکے ہیں، جس کے تحت ایک کنٹیسٹینٹ باہری مدد لے سکتا ہے۔ وہ اپنی آخری ’لائف لائن‘ استعمال کرتے ہوئے ایک ’ایکسپرٹ‘ کو کال کرتے ہیں۔ ’ایکسپرٹ‘ سوال کا جواب دینے سے پہلے ان کے اور ان کے والدین کے عزم کی تعریف کرتی ہیں، اور پھر جواب بتاتی ہیں، جو کہ مارٹن والڈ سیملر تھا۔

بچن کمپیوٹر سے جواب کو ’لاک‘ کرنے کو کہتے ہیں، اور فوراً مسکراتے ہوئے ماینک کے والدین کی طرف دیکھتے ہیں اور چیختے ہیں ’ایک کروڑ۔‘

سٹینڈ میں موجود لوگ کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہیں۔ ماینک اور بچن دونوں اپنی سیٹ سے چھلانگ لگاتے ہیں۔ ماینک امیتابھ بچن کو گلے لگاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں. اور ان کے والدین دوڑ کر انھیں گلے لگاتے ہیں۔

ماینک مزید آگے کھیلنا چاہتے ہیں، اور سات کروڑ روپے کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جواب کے بارے میں یقینی نہیں ہونے کی وجہ سے ایک کروڑ کے انعام کے ساتھ کھیل چھوڑ دیتے ہیں۔

ماینک نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے 16 سوالوں میں سے 15 سوالوں کا صحیح جواب دیا تھا. اور یہ 16واں سوال تھا جس پر انھوں نے کھیل کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کی یہ کامیابی انڈیا بھر کے نیوز چینلز اور اخبارات کی شہ سُرخیوں میں رہی۔ جب وہ گھر واپس لوٹے تو گاؤں والوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ان کے والد کو فون کر مبارکباد دی۔ انھوں نے ماینک کو ’جینیئس‘ کہا۔

’ہم نے ماینک پر کبھی پڑھائی کا اضافی دباؤ نہیں ڈالا‘

ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ’تقریباً ایک دہائی تک ماینک کے والد پردیپ گھر میں ’ہاٹ سیٹ‘ پر بیٹھتے تھے اور ایک کے بعد ایک اس کھیل میں پوچھے سوالوں کے جواب دیتے تھے، اس سے پہلے کہ پروگرام میں شامل اصل شخص سامنے ٹی وی سکرین پر اس کا جواب دیتا تھا۔‘

ماینک اور ان کے والد زیادہ سے زیادہ جوابات دینے کے لیے آپس میں مقابلہ بھی کرتے تھے۔

ماینک کا کہنا ہے کہ ’میرے والد ہم میں سب سے زیادہ پرجوش ہوتے تھے۔ وہ خود کو امیتابھ سر کے سامنے ’ہاٹ سیٹ‘ پر بیٹھنے کا تصور کرتے تھے. اور ایک ایک کر کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔ بعض اوقات وہ ’لائف لائنز‘ کا استعمال بھی کرتے تھے، بالکل اسی طرح جیسے ٹی وی پر ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میرا پہلا موقع تھا اور میں دو تین مہینے سے اس کے لیے تیاری کر رہا تھا، حالانکہ یہ شو میں کچھ برسوں سے دیکھتا آیا ہوں۔‘

ماینک

ماینک کہتے ہیں کہ ان کے والدین ان کے رول ماڈل ہیں۔ ان کے والد، جو کہ دلی پولیس میں ایک کانسٹیبل ہیں، کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اپنے بیٹے کی پڑھائی کے لیے کبھی دباؤ نہیں ڈالا۔ غیر نصابی چیزیں جیسے کھیل کود بھی ضروری ہیں۔ ہم نے اضافی دباؤ نہیں ڈالا کہ آپ کی سلیکشن کے بی سی میں ہو گئی ہے. تو آپ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں. اور اس کے لیے اضافی تیاری اور محنت کریں۔‘

خوش قسمتی

وہ مزید بتاتے ہیں کہ انھوں نے شو کے لیے. خود سے ایک نوٹ بنا کر دیا تھا۔ اور ’خوش قسمتی سے اس میں سے ایک دو سوال پوچھے بھی گئے. اور ماینک نے اسے اچھے سے ہینڈل بھی کیا۔‘

ماینک پڑھائی میں اچھے ہیں اور باسکٹ بال، فٹ بال، بیڈمنٹن اور گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں۔

وہ انعامی رقم کو اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، جسے وہ 18 سال کی عمر ہونے کے بعد بینک سے نکال پائیں گے۔ وہ بڑے ہو کر روبوٹیک انجینیئر بننا چاہتے ہیں۔

انھیں انعام کے طور پر ایک کار بھی ملی۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.