’خاص سکون‘ فراہم کرنے والے ہنی مون ہوٹل اور وائٹ ہاؤس کی اہمیت؟

پاکستان بھر میں جاری بارشوں اور سیلابی ریلوں نے اکثر علاقوں میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ اور شمالی علاقوں میں کئی کئی منزلہ عمارتوں کے زمین سے اکھڑنے اور پانی میں بہہ جانے کی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔

عمارتوں کے منہدم یا سیلابی ریلوں میں بہہ جانے کے زیادہ ۔واقعات پہاڑی علاقوں ۔خصوصا سوات اور دیر کے مختلف حصوں میں پیش آئے ہیں۔ جہاں چوٹیوں پر سے بہتا پانی کئی سو کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے نیچے کا سفر کرتا ہے۔

اس تیز رفتار سے بہتا پانی اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔

پاکستان کا سوئٹزر لینڈ کہلایا جانے والا سوات اپنے قدرتی حسن اور موسم کی وجہ سے نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کے لیے ایک بڑی کشش ہے۔

ضلع سوات صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ریجن (یا ڈویژن) کا حصہ ہے۔ اور کئی وادیوں پر مشتمل ہے۔ جن میں وادی سوات اور وادی کالام زیادہ معروف ہیں۔

ضلع سوات میں بحرین، مدین، کالام، مالم جبہ، اوشو اور ماہوڈھنڈ جیسے علاقے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔

ہر سال لاکھوں سیاحوں کی آمد کی وجہ سے سوات کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ہزاروں ہوٹل اور ریستوران موجود ہیں، جن کی اکثریت اس میں سے سانپ کی طرح بل کھا کر گزرنے والے دریائے سوات کے کنارے تعمیر کیے گئے ہیں۔

ہنی مون ہوٹل

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق ویڈیوز میں سے ایک سوات کے علاقے کالام میں ہنی مون ہوٹل کی ہے۔ جسے گذشتہ کئی گھنٹوں کے دوران لاکھوں صارفین نے دیکھا۔ اور شیئر کیا ہے۔

دریائے سوات کے کنارے واقع ہنی مون ہوٹل کے منہدم ہونے کے مناظر نہایت دل دہلا دینے والے ہیں۔ جن میں پہلے خوش رنگ عمارت کے سامنے تیز سیلابی ریلوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اور یکا یک اس کی کھڑکیوں میں لگے شیشے ٹوٹ کر گرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کے چند سیکنڈ کے بعد اس کا ایک حصہ بیٹھنے لگتا ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہوٹل کی عمارت کے ایک بڑا حصے کے ٹکڑے چنگھاڑتے ہوئے پانیوں میں تیرتے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ اور پھر سیلابی ریلے میں ڈوب کر غائب ہو جاتے ہیں۔

کالام سوات میں واقع ایک وادی ہے۔ جو صوبہ خیبر پختون خوا کے تیسرے بڑے شہر مینگورہ کے شمالی میں 99 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سوات کے کنارے واقع ہے۔

کالام بازار مینگورہ-کالام روڈ پر دریائے سوات کے کنارے واقع ہے۔ اور یہاں موجود عمارتیں۔ جن میں اکثریت ہوٹلوں اور ریستورانوں کی ہے۔ بہتے پانی کے کچے کناروں کے انتہائی قریب تعمیر کی گئی ہیں۔

گذشتہ کئی روز سے کالام بازار میں موجود صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح۔ محمد زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم ہوٹل کے استقبالیے كے سامنے سڑک پر موجود تھے۔ اور ہماری آنکھوں کے سامنے اس کی عمارت جیسے کاغذ کی طرح پھٹ رہی تھی، بہت خوفناک منظر تھا۔‘

کالام کی صورتحال

کالام کے رہائشی نصراللہ ملک کے مطابق اس وقع میں ہنی مون ہوٹل کا 40 فیصد حصہ سیلابی ریلے کی نظر ہوا۔ جبکہ مینگورہ میں نجی ٹی وی چینل ۔’جیو نوز‘۔ کے نمائندے محبوب علی کا کہنا تھا کہ تباہ ہونے والا حصہ عمارت کا کم از کم 60 فیصد تھا۔

ہنی مون ہوٹل، جس کا پورا نام ہنی مون ایٹ نائن ٹین ہوٹل ہے، پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت ہمایوں شینواری کی ملکیت ہے۔

دو ہزار کی دہائی کے شروع میں قائم ہونے والے ہنی مون ہوٹل کو 2010 میں کی بارشوں اور سیلاب میں بھی نقصان پہنچا تھا جس کے بعد اسے 14-2013 میں مرمت و تزئین و آرائش کے بعد دوبارہ سیاحوں کے لیے کھولا گیا تھا۔

ہنی مون ہوٹل میں مجموعی طور پر 160 کمرے تھے۔ اور اس کی عمارت کو شوخ رنگوں کے امتزاج سے خوبصورت بنایا گیا تھا، جہاں مہمانوں کی پاکستانی کھانوں کے علاوہ چینی پکوان سے بھی تواضع کی جاتی ہے۔

ہوٹل کی عمارت کی تباہی سے متعلق ویڈیو کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک دوسری فوٹیج بھی موجود ہے۔ جس میں ہنی مون ہوٹل کی کھڑکیوں میں سے سامان پارکنگ میں گراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.