خالص ہلدی کی پہچان کیا ہے اور یہ کب جسم کے لیے فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ بن جاتی ہے؟

ہلدی پاکستانی اور انڈین کھانوں کا لازمی جزو ہے. جس کا استعمال نہ صرف کھانوں میں ذائقے بلکہ ان کو خوش نما رنگ دینے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

کھانے میں ہلدی کا استعمال انسانی جسم میں سوزش اور جراثیم کے خاتمے اور وباؤں کی روک تھام کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہلدی کا اصل رنگ زرد نہیں بلکہ سنہری ہوتا ہے. اور اس ضمن میں جانکاری رکھنے والے لوگ اسے خریتے وقت اس کے رنگ کو ہی مدِنظر رکھتے ہیں۔

لیکن جہاں ہلدی کے بہت سے طبی فائدے ہیں وہیں اس میں ہونے والی ملاوٹ سے انسانی صحت پر مضر اثرات پڑ سکتے ہیں۔

یہاں یہ سوال اہم ہے. کہ کیسے پتا کیا جائے. کہ جو ہلدی. آپ اپنے کھانوں میں استعمال کر رہے ہیں وہ ملاوٹ سے پاک ہے؟. اس سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے. بی بی سی نے ماہرین سے بات کی ہے۔

ہلدی میں ملاوٹ کیسے ہوتی ہے؟

ہلدی، ہلدی کا استعمال، لیڈ کرمیٹ، انڈین کھانے، پاکستانی کھانے
،تصویر کا کیپشنہلدی کے پاؤڈر میں ملاوٹ کے لیے نشاستہ، ادرک کی جڑیں اور آرٹیفشل رنگ جیسی اشیا کا استعمال کیا جاتا ہے

بین الاقوامی مارکیٹ میں ہلدی کی مانگ بہت زیادہ ہے. اور اسی وجہ سے تاجر منافع بڑھانے کے لیے. اس میں ملاوٹ کرتے ہیں۔

ہلدی کے پاؤڈر میں ملاوٹ کے لیے نشاستہ، ادرک کی جڑیں اور آرٹیفشل رنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

گذشتہ 30 برسوں سے گجرات میں غذائی اجزا پر ریسرچ کرنے والے اتُل سونی نے بی بی سی کو بتایا کہ ہلدی میں. ملاوٹ کرنے کا بنیادی مقصد پیسہ بنانا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہلدی میں ’ملاوٹ کرنے کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ اس میں آٹا یا نشاستہ ملا دیا جائے۔‘

’دوسرا طریقہ ہے کہ چند تاجر اچھی کوالٹی کی ہلدی میں اکثر ناقص کوالٹی کی ہلدی ملا دیتے ہیں تاکہ اس کی مقدار بڑھائی جا سکے۔ جبکہ تیسرا طریقہ ہے. کہ ہلدی کی کوالٹی کو مزید بہتر دکھانے کے لیے. اس کے رنگ کو مزید نکھار دیا جائے جو کہ ہلدی میں مصنوعی رنگ شامل کرنے سے ہوتا ہے۔‘

اتُل سونی کہتے ہیں کہ ہلدی میں مصنوعی رنگ شامل کرنے والے شاید نہیں جانتے کہ ’آرٹیفشل رنگ میں کرومیٹ کے اجزا شامل ہوتے ہیں۔‘

ملاوٹ

ملاوٹ کے دوسرے طریقوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہلدی کا کام کرنے والے اس کی تیاری کی قیمت کو کم کرنے کے لیے اس میں ایک آئل کا استعمال کرتے ہیں. اور یہ سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ سرطان جیسے مرض کا باعث بن سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہلدی کا کوئی مخصوص رنگ نہیں ہوتا، اسی لیے. صرف دیکھ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ ملاوٹ زدہ ہے یا خالص۔‘

اتُل سونی کہتے ہیں کہ ’ہلدی کی کوالٹی چیک کرنے کے بعد عموماً فوڈ لیبز آپ کو رپورٹ دیتی ہیں اور اگر رپورٹ میں ملاوٹ ثابت ہوتی ہے تو اس کی بنیاد پر گاہک مینوفیکچرر کے خلاف مقدمہ بھی درج کر سکتا ہے۔‘

انھوں نے مشورہ دیا کہ لوگوں کو چاہیے. کہ وہ اچھی کمپنیوں کی ہلدی کا استعمال کریں۔

اتُل سونی کی رائے میں ’اچھی کمپنیوں کو بازار میں ہلدی فروخت کرنے سے پہلے حکومتی اداروں سے اس کی ٹیسٹنگ کروانا پڑتی ہے اور اگر اس کے بعد بھی گاہک کو لگتا ہے. کہ ہلدی ملاوٹ زدہ ہے. تو وہ مینوفیکچرر کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کر سکتے ہیں۔‘

کرومیٹ کیا ہے؟

لیڈ کرمیٹ نامی کیمیکل کا استعمال ہلدی کے رنگ کو مزید سنہرا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ دراصل دو کیمیلکلز لیڈ اور کرومیم کا مرکب ہے. جسے ہلدی کی رنگت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اسی کیمیکل کا استعمال ہلدی کی جڑوں کو مزید سنہرا کرنے اور اس کا وزن بڑھانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ لیڈ پوائزننگ کے کیسز انڈیا میں سامنے آتے ہیں۔

محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ لیڈ کرومیٹ سے گُردوں اور دماغ پر اثر پڑتا ہے. اور اس سے بچوں کی دماغی نشونما بھی رُک سکتی ہے۔

لیڈ پوائزننگ سے بچوں کی دماغی حالت پر ایسے اثرات بھی پڑ سکتے ہیں جس سے ان کی سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اس سے ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال پر بھی اثر پڑتے ہیں۔

امریکی کمپنی پیور ارتھ کی جانب سے 2018 میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی. کہ بِہار میں ریسرچ کا حصہ بنانے والے کچھ لوگوں کے خون کے نمونوں میں لیڈ پایا گیا تھا۔

گھروں میں استعمال

پیور ارتھ کے ڈائریکٹر ایڈوکیسی اور کمیونیکیشنز سندیپ داھیا کہتے ہیں. کہ ’ہمیں معلوم ہوا کہ گھروں میں استعمال ہونے والی ہلدی میں لیڈ کی مقدار موجود ہے۔‘

اس تحقیق میں کہا گیا تھا کہ لیڈ کا مسلسل استعمال انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس سے نروس سسٹم، گُردے، دماغ، جگر اور خون کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔

مختصر دورانیے کے لیے اس کا استعمال بھی انسان کو سر درد، یاداشت کی کمزوری، قبض، کمزوری اور پیٹ کے درد میں مبتلا کر سکتا ہے۔

ایک بار اگر لیڈ جسم میں سرایت کر جائے تو پھر یہ خون، جگر، گُردوں، دل، دانتوں اور ہڈیوں تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

حمل کے دوران جسم میں موجود لیڈ خون میں جذب ہونا شروع ہو جاتا ہے. جس سے بچے کی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔

ہلدی، ہلدی کا استعمال، لیڈ کرمیٹ، انڈین کھانے، پاکستانی کھانے
،تصویر کا کیپشنلوگوں کو چاہیے کہ وہ اچھی کمپنیوں کی ہی ہلدی کا استعمال کریں

ہلدی کا پاؤڈر کیسے بنتا ہے؟

ہلدی کا پاؤڈر اس کی جڑوں سے تیار کیا جاتا ہے جس کے لیے. اس کو پہلے خشک کیا جاتا ہے۔ تاجر اس کی فروخت سے قبل اسے مہینوں تک کُھلی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے خشک کیا جا سکے۔

اس عمل سے گزرنے کے. بعد اسے پاؤڈر میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

منسٹری آف کامرس کے مطابق انڈیا دنیا میں مصالحے بنانے والے ملکوں میں سرِفہرست ہے اور پچھلے نو سالوں میں یہاں سے مسالحوں کی برآمد میں دُگنا اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا کی مسالحوں کی کی سالانہ برآمد 3995 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔

کیمیکل اور دھاتوں کے استعمال کے نقصانات

کیمیکل اور دھاتوں کے استعمال سے ہونے والے نقصانات کو سمجھانے کے لیے ہم یہاں ایک مثال کا استعمال کرتے ہیں۔

دسمبر 2020 میں انڈین ریاست آندھرا پردیش میں 560 افراد کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔

ان تمام لوگوں کو ایک جیسی تکلیف جیسا کہ متلی، بے ہوشی، آنکھوں میں جلن اور سر میں درد کا سامنا تھا۔

ان افراد میں سے صرف ایک شخص ہلاک ہوا تھا جبکہ باقی لوگوں کو بچا لیا گیا تھا۔

کچھ دنوں بعد ریاستی حکومت نے اعلان کیا کہ وہاں پھیلنے. والی بیماری کی وجہ پانی میں پایا جانے والا زہر تھا۔

دو اداروں کی جانب سے پیش کی جانے والی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بازار میں ملنے والے دودھ اور پینے کے پانی میں بڑی مقدار میں لیڈ کی ملاوٹ ملی ہے۔

ہلدی، ہلدی کا استعمال، لیڈ کرمیٹ، انڈین کھانے، پاکستانی کھانے

انڈیا ہلدی بنانے والا دُنیا کا سب سے بڑا ملک

اگر ہم ہلدی تیار کرنے والے ممالک کی بات کریں. تو ان میں انڈیا، میانمار اور مالدیپ شامل ہیں۔ ان میں انڈیا وہ ملک ہے جو سب سے زیادہ ہلدی تیار کرتا ہے۔

امریکہ میں بھی کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہاں بھی بچوں کے خون میں لیڈ کی ملاوٹ نظر آئی ہے۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ لیڈ ان لوگوں سے خون میں پایا گیا جو انڈیا سے امریکہ منتقل ہوئے تھے۔

اس تحقیق کے منظرِ عام پر آنے کے بعد امریکہ .میں محکمہ برائے فوڈز اینڈ ڈرگز نے لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ انڈین مصالحوں کے استعمال سے اجتناب کریں۔

سٹیوفورڈ یونیورسٹی نے 2019 میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا. کہ بنگلہ دیش میں بھی لیڈ سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس کے بعد بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے اسے ایک قومی مسئلہ قرار دیا تھا. اور نئے قوانین متعارف کروائے تھے تاکہ اگلے دو سالوں میں ہلدی کو لیڈ سے مکمل پاک کیا جا سکے۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ انڈیا کو بھی چاہیے. کہ وہ بنگلہ دیش کی کوششوں کو دیکھے اور اس پر عمل کرے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.