جب انڈین خاتون کی ناک کی کیل کا پیچ پھیپھڑے سے ملا

جب ورشا ساہو نے حادثاتی طور پر ناک میں پہنی جانے والی کیل کا پیچ نگل لیا. تو ان کو شروع میں زیادہ پریشانی نہیں تھی۔

ان کا خیال تھا کہ یہ معدے میں جا چکا ہے. اور قدرتی طور پر ہاضمے کے نظام کی مدد سے جسم سے باہر نکل جائے گی۔

لیکن یہ دھات پیٹ میں جانے کے بجائے ان کے پھیھڑے میں پھنس گئی. اور کئی ہفتے تک انھیں سانس لینے میں تکلیف کا سامنا رہا۔ بعد میں ڈاکٹروں نے اسے سرجری کے ذریعے باہر نکال دیا۔

انڈیا میں زیادہ تر شادی شدہ خواتین کی طرح 35 سالہ ورشا نے بھی 16-17 سال پہلے شادی کے ساتھ ہی ناک میں کیل پہننا شروع کیا تھا. جسے شادی شدہ ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

کلکتہ میں اپنے گھر سے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے. ان کا کہنا تھا. کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ ناک کے کیل کا پیچ ڈھیلا ہو چکا ہے۔‘

گہرا سانس

انھوں نے بتایا کہ ’میں بات کر رہی تھی جب میں نے گہرا سانس لیا اور سانس اندر کھینچتے ہوئے مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ سانس کی نالی میں چلا گیا۔ مجھے لگا یہ میرے پیٹ میں گیا ہو گا۔‘

ڈاکٹر دیبراج جاش، جنھوں نے ورشا کے پھیپھڑے سے گزشتہ ماہ ناک کی کیل کا پیچ نکالا اسے ایک ’نہایت غیر معمولی کیس‘ قرار دیتے ہیں کیوں کہ انڈیا کے میڈیا کے مطابق گزشتہ دہائی میں ایسے صرف دو ہی کیسز سامنے آئے ہیں۔

ڈاکٹر دیبراج کا کہنا ہے. کہ ’کبھی کبھار ایسے کیس آتے ہیں. کہ خشک میوہ جات کسی کے پھیپھڑے میں چلے گئے. ہوں لیکن ایسا زیادہ تر بچوں یا 80 سال سے بڑی عمر کے ادھیڑ عمر افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔ 30 سال کی عمر کی خاتون مریضہ کے ساتھ ایسا ہونا غیر معمولی ہے۔‘

ورشا ساہو
،ورشا ساہو کے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ پیچ ان کے پھیپھڑے میں جا چکا ہے

کھانسی اور سانس میں تکلیف

ورشا کی کہانی اس وقت منظر عام پر آئی جب اس واقعے کے ایک ماہ بعد وہ ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں اور بتایا کہ ان کو مسلسل کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف کے ساتھ نمونیا کی شکایت ہے۔

ان کا خیال تھا. کہ ناک پر لگنے والے ایک زخم کی وجہ سے ان کو سانس لینے. میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

جب ادویات سے ان کو آرام نہیں آیا تو انھوں نے پلمونالوجسٹ یعنی ان امراض کے ماہر ڈاکٹر کو دکھایا جنھوں نے سی ٹی سکین اور ایکس رے کیا تو علم ہوا کہ معاملہ کیا ہے۔

پلمونالوجسٹ نے ایک چھوٹا سا کیمرہ، جس کے ساتھ فورسیپ یا کاٹ دار آلہ نصب ہوتا ہے، ان کی سانس کی نالی میں ڈالا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پائے. جس کے بعد ورشا کو ڈاکٹر دیبراج کے پاس بھیجا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں پہلے مریضہ کو تسلی دینا پڑی کیوں کہ وہ پہلے طبی عمل کے فوری بعد ایک اور طبی عمل سے گزرنے کے بارے میں پریشان تھیں۔ ہم نے ان کو وضاحت کی کہ انسانی جسم میں کسی بیرونی شے کی کوئی جگہ نہیں اور اسے نکالنا ضروری ہے۔‘

’ہم نے ان کو بتایا کہ ان کا جسم اسے تسلیم نہیں کرے گا اور اگر اس کا علاج نہیں کیا گیا تو ان کا نمونیا بدتر ہوتا چلا جائے گا۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.