انڈیا میں قید پاکستانی اپنوں سے’ملنے کو ترس رہے ہیں‘: پاکستانی ماہی گیر

انڈین جیل سے رہائی پانے والے مشتاق احمد کی اہل خانہ سے ملاقات کے جذباتی مناظر

انڈیا میں قید 10 پاکستانی ماہی گیر رہائی کے بعد رواں ہفتے کراچی پہنچے، جن کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک کی جیلوں میں قید بہت سے پاکستانی ماہی گیر اب بھی اپنے خاندان سے ملنے کو ترس رہے ہیں۔

رہائی پانے والے ماہی گیروں میں عبدالشکور، مشتاق احمد، محمد رمضان، عبد الامین، محمد عارف، فرید عالم اور روشن علی کراچی کے رہائشی ہیں. جنہیں 2018 میں انڈین فورسز نے سمندری حدود کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا تھا، جب کہ رہائی پانے والے دیگر ماہی گیروں کا تعلق ٹھٹہ اور کے ٹی بندر سے تھا۔

لگ بھگ چھ سال تک انڈیا کی جیل میں قید رہنے والے مشتاق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا. کہ وہ سمندر میں کوئی جرم کرنے نہیں بلکہ روزگار کمانے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’بچوں سے ملاقات کرکے اچھا لگ رہا ہے. لیکن ناخوش اس لیے ہوں. کیونکہ میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ اور بھی مچھی مار (ماہی گیر) ادھر .(انڈیا میں) پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو بھی جلد سے جلد ادھر لایا جائے. اور جو انڈیا کے (ماہی گیر) یہاں ہیں ان کو بھی وہاں بھیجا جائے، وہ بھی اپنے خاندان سے ملنے کے لیے ترس رہے ہیں. اور بے چین ہیں۔‘

سمندری حدود کی خلاف ورزی

مشتاق احمد کہتے ہیں کہ ماہی گیت اپنوں کا پیٹ پالنے کے لیے سمندر میں جاتے ہیں، چوری کرنے نہیں جاتے۔

رہائی پانے والے ایک اور ماہی گیر روشن علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا. کہ انہیں 2018 میں سمندر سے گرفتار کیا گیا اور قید دوران انہیں رہائی کی امید نہیں تھی۔

روشن کا بھی کہنا تھا کہ سمندر میں وہ اپنے بچوں کا رزق تلاش کرنے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’ہم مجرم نہیں ہیں۔‘

بقول روشن: ’چھ سال بعد پاکستان میں آئے ہیں، اپنے بھائی اور والد سے مل کر اب بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان سمندری حدود کے تنازعے کی وجہ سے اس وقت بیسیوں ماہی گیر دونوں ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔

ماہی گیر مچھلی کی تلاش میں غلطی سے دوسرے ملک کی سمندری حدود میں چلے جاتے ہیں، جنہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

ماہی گیروں کے حقوق کے لیے. کام کرنے والی ایک تنظیم فشر فورم فوک کے ترجمان. کمال شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں. حکومت پاکستان سے درخواست. کی کہ ماہی گیروں کی رہائی کے لیے اقدامات کرے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.