انڈیا کی ریاست راجستھان میں جے پور کی ایک عدالت کو قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران پولیس نے بتایا ہے کہ آلہ قتل (چاقو) سمیت تمام ثبوت بندر لے گئے ہیں۔
عدالت نے گذشتہ سماعت پر پولیس کو قتل کے شواہد پیش کرنے کا حکم دیا تھا مگر اب پولیس نے عدالت کو بتایا ہے کہ قتل سے متعلق ضبط کیے گئے ثبوت ان کے پاس نہیں ہیں۔
’بندر تھانے سے ثبوت لے گئے‘
دیہی جے پور پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) منیش اگروال نے عدالت کو تحریری طور پر یہ معلومات دی ہیں۔ ایس پی منیش اگروال نے بی بی سی کو بتایا ’یہ کیس 2016 کا ہے۔ اس وقت مال خانے کے انچارج نے سال 2017 میں رپورٹ پیش کی تھی کہ بندر ثبوت لے گئے ہیں۔‘
پولیس کے مطابق قتل کے اہم شواہد میں چاقو، خون آلود کپڑے، جائے وقوعہ سے لی گئی مٹی، خون کے نمونے، چپل، موبائل فون سمیت قتل سے متعلق تمام 15 اہم شواہد ایک ڈبے میں رکھے گئے تھے۔
ثبوتوں کا یہ ڈبہ جے پور کے چندواجی تھانے کے مال خانے میں ایک ٹین شیڈ کے نیچے رکھا گیا تھا۔
عدالت نے پولیس پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ پبلک پراسیکیوٹر نے جے پور ایس پی کو خط لکھ کر معاملے کی تحقیقات اور تمام ثبوت عدالت میں پیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
تاہم دیہی جے پور پولیس کے ایڈیشنل ایس پی دھرمیندر نے بتایا ہے کہ ’عدالت میں ثبوتوں کی ایس ایف ایل تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جا چکی ہیں۔‘
عدالت میں اس کیس کی اگلی سماعت 13 مئی کو ہو گی۔
ذمہ دار کون ہے؟
چندواجی تھانے کے سربراہ دلیپ سنگھ نے بی بی سی کو بتایا ’قتل کے شواہد مال خانے میں تھے۔ اس دوران بندروں کا ایک گروہ نے تھانے کے مال خانے سے شواہد کا ڈبہ لے گیا۔ اب تک تو عملہ بھی بدل چکا ہے اور اُس وقت کے مال خانہ انچارج بھی ریٹائر ہو چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چاقو، کپڑے، چپل سمیت تمام شواہد ساتھ رکھے ہوئے تھا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ فائل عدالت میں ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس پوری معلومات نہیں ہیں اور یہاں اب بھی بہت سے بندر موجود ہیں۔
پولیس نے عدالت میں بتایا ہے کہ جب بندر قتل سے متعلق شواہد لے گئے اُس وقت مال خانے کے انچارج ہنومان سہائے یادو نے تھانے کے روزنامچے میں رپورٹ درج کرائی تھی۔
ہنومان سہائے یادو کی ریٹائرمنٹ کے بعد سال 2021 میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔
پبلک پراسیکیوٹر نے پولیس کی طرف سے بتائی گئی کہانی پر سوال اٹھاتے ہوئے منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پورے معاملے کی جانچ جے پور دیہی پولیس کے ایڈیشنل ایس پی دھرمیندر کے پاس ہے۔
کیس کی تفتیش کا ثبوت
ایڈیشنل ایس پی دھرمیندر نے بی بی سی کو بتایا ’ثبوتوں کو تحقیقات کے لیے ایس ایف ایل کو بھیجا گیا تھا اور پھر انھیں وہاں سے واپس لایا گیا تھا۔ اس کے بعد اس وقت کے مال خانے کے انچارج نے روزنامچے میں اطلاع دی تھی کہ ٹین شیڈ کے نیچے سے ثبوتوں کا ڈبہ بندر لے گئے تھے۔‘
ایڈیشنل ایس پی کا کہنا ہے کہ ’تحقیقات میں اس وقت کے مال خانے کے انچارج ہیڈ کانسٹیبل کی لاپرواہی سامنے آئی جسکے بعد ہیڈ کانسٹیبل کو کارروائی کے لیے لکھا گیا، لیکن پتا چلا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد 2021 میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہیڈ کانسٹیبل ہنومان سہائے نے اس دوران اپنے سینیئرز کو بھی اس بارے میں مطلع نہیں کیا تھا۔‘
قتل کے دو ملزم
سنہ 2016 میں جے پور کے چندوجی گاؤں کے رہائشی ششی کانت شرما پرائمری ہیلتھ سینٹر میں مردہ پائے گئے تھے۔
جس کے بعد اہل خانہ نے دہلی سے جے پور جانے والی شاہراہ کو بند کر کے مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
تنازعہ بڑھتے ہی پولیس نے ششی کانت شرما کی موت کی تحقیقات تیز کر دیں۔ تحقیقات کے دوران چندوجی کے رہنے والے دو نوجوانوں کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ملزم کے بتانے پر آلہ قتل (چاقو) برآمد کیا گیا، مبینہ طور پر قتل اسی چھری سے کیا گیا تھا۔ پولیس نے مزید کئی شواہد بھی اکٹھے کر لیے تھے۔
اس قتل کا مقدمہ جے پور کی ٹرائل کورٹ میں چل رہا ہے جہاں گذشتہ دنوں ہونے والی سماعت میں عدالت نے شواہد پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن پولیس نے عدالت کو بتایا ہے کہ ثبوت بندروں نے چھین لیے ہیں۔