دنیا کی معمر ترین شخصیت فرانسیسی راہبہ لوسائل رینڈن 118 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ رینڈن، جنہوں نے 1944 میں نن بننے پر سسٹر آندرے کا نام قبول کیا تھا– فرانس کے علاقے ٹولن میں اپنے نرسنگ ہوم میں سوتے ہوئے انتقال کر گئیں۔ وہ جنوبی فرانس میں 1904 میں پیدا ہوئی تھیں، انہوں نے دو عالمی جنگیں دیکھیں اور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کیتھولک مذہب کے لیے وقف کر دیا۔ ایک بار انہوں نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ان کی لمبی عمر کا راز ’صرف خدا ہی جانتا ہے‘۔ وہ اس وقت پیدا ہوئی تھیں جب ٹور ڈی فرانس صرف ایک بار ہی ہوا تھا، سسٹر آندرے نے 27 فرانسیسی سربراہان مملکت کو بھی دیکھا۔
انکے نرسنگ ہوم کے ایک ترجمان ڈیوڈ ٹویلا نے منگل کو صحافیوں کو ان کی موت کی خبر دی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں بہت دکھ ہے لیکن۔ یہ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے پیارے بھائی کے ساتھ جا ملیں۔ ان کے کے لیے یہ ایک طرح کی رہائی ہے‘۔
سسٹر آندرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے بھائیوں سے بہت محبت تھی۔ انہوں نے ایک بار صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان کی سب سے پیاری یادوں میں سے ایک پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر لڑائی سے ان کی محفوظ واپسی تھی۔
نابینا ہونے اور وہیل چیئر پر ہونے۔ کے باوجود، سسٹر آندرے دوسرے بزرگ لوگوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں۔ جن میں سے کچھ عمر میں ان سے بہت چھوٹے تھے۔
مجھے کام ہی نے زندہ رکھا
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ گذشتہ اپریل میں ایک انٹرویو میں سسٹر آندرے نے کہا تھا ’لوگ کہتے ہیں کہ کام جان نکال دیتا ہے، لیکن مجھے کام ہی نے زندہ رکھا، میں 108 سال کی ہونے تک کام کرتی رہی‘۔
اسی انٹرویو کے دوران، انہوں نے کہا تھا کہ وہ جنت میں خوش رہیں گی۔ لیکن ہر روز چاکلیٹ کھانے اور شراب کا ایک گلاس پینے جیسی دنیاوی لذتوں سے بھی لطف اندوز ہوتی رہتی ہیں۔
وہ کچھ عرصے سے یورپ کی سب سے عمر رسیدہ انسان تھیں۔ لیکن گزشتہ اپریل میں انہوں نے گنیز بک آف ریکارڈز میں دنیا کی معمر ترین شخصیت کے طور پر نام درج کروایا جس میں پہلے ایک جاپانی خاتون تاناکا کا نام تھا جو 119 سال کی عمر تک زندہ رہیں۔
ریکارڈ کی کتابوں میں انکا نام پہلی بار نہیں آیا تھا۔ 2021 میں وہ کووڈ سے صحت یاب ہونے والی سب سے عمر رسیدہ شخص بن گئی تھیں۔ سسٹر آندرے ایک پروٹسٹنٹ خاندان میں پیدا ہوئی تھیں، لیکن بعد میں 26 سال کی عمر میں بیپٹائز ہونے کے بعد کیتھولک مذہب اختیار کر لیا تھا۔
کیتھولک چرچ میں شامل ہونے کے اپنے فیصلے کے تقریباً 15 سال بعد مزید آگے بڑھنے کی خواہش سے متاثر ہو کر، وہ راہباؤں کے ایک آرڈر میں شامل ہو گئیں۔ جسے ’ڈاٹرز آف چیریٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہیں ویچی کے ایک ہسپتال میں تعینات کیا گیا تھا، جہاں انہوں نے تقریباً 31 سال گزارے۔
اپنے آخری انٹرویو میں سے ایک میں، انہوں نے صحافیوں سے کہا تھا۔ ’لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے اور نفرت کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے۔ اگر ہم یہ سب شیئر کرتے ہیں۔ تو حالات بہت بہتر ہوتے جاتے ہیں‘۔