انڈیا کی جنوبی ریاست تلنگانہ کے کھمم ضلع میں ایک 80 کلومیٹر (49.7 میل) سڑک کے دونوں طرف پام آئل کے باغات ہیں۔
ناگارجونہ بھی یہاں کے ان کئی کسانوں میں شامل ہیں جو اس موسم میں اپنے کھیتوں میں پام آئل کے پودے لگا رہے ہیں۔
50 برس کے معمر شخص کو گذشتہ برس اپنے ۔چار ایکڑ فارم پر چاول۔ کی کاشت سے بہت زیادہ نقصان ہوا تھا۔، تاہم انھیں امید ہے کہ پام آئل انھیں منافع میں واپس آنے میں مدد دے گا۔ وہ کہتے ہیں۔ کہ حال ہی میں ان کے گاؤں میں کم از کم 50 دیگر کسانوں نے بھی ایسا ہی ہی کیا ہے۔
وہ اب انڈیا کے پام آئل کا مرکز بننے کے خواب دیکھنے والی ریاست کے اس منصوبے میں شامل ہو رہے ہیں جس میں دیگر کسانوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یعنی کسان اب کوئی موسمی فصل اگانے کے۔ بجائے پام آئل کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب سنہ 2014 کے مقابلے میں سے یہاں پام آئل کی کاشت والی زمین 34,000 ایکڑ سے بڑھ کر سنہ 2022 میں 72,000 ایکڑ ہو گئی ہے۔
بھاری منافع
کسان نارائن راؤ کا تعلق پڑوسی ریاست آندھرا پردیش سے ہے اور بھی وہ باغبانی کے اس کاروبار سے حاصل ہونے والے بھاری منافع سے متاثر ہیں۔ نارائن راؤ نے آٹھ سال قبل کھمم میں اپنے 30 ایکڑ کے رقبے میں پام آئل کی کاشت شروع کی اور وہ کہتے ہیں کہ انھیں۔ 40 لاکھ انڈین روپے یعنی تقریباً 50 ہزار۔ ڈالر سے زیادہ کا منافع ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پام آئل کی فصل کی عمر تقریباً 30 سال ہے۔ میری عمر 72 سال ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنی زندگی میں اب ان پودوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکوں گا۔ `
پام آئل کو ایک ’حیرت انگیز فصل‘ سمجھا جاتا ہے۔ اور اس تیل کو روزمرہ کی تقریباً تمام مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔ کھانے کی اشیا جیسے چاکلیٹ، آئس کریم، روٹی اور مکھن سے لے کر کاسمیٹکس تک۔ یہ ڈیزل اور پیٹرول میں بائیو فیول کے جزو کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے مختلف قسم کے صنعتی استعمال بھی موجود ہیں۔
انڈیا میں پام آئل کوکنگ آئل مارکیٹ کی 60 فیصد ضرورت پوری کرتا ہے۔ انڈیا اپنی ضروریات کا صرف 2.7 فیصد پیدا کرتا ہے یعنی 300,000 میٹرک ٹن سے بھی کم پام آئل۔ اور اپنی ضرورت کا 90 فیصد تقریباً دس ملین میٹرک ٹن انڈونیشیا اور ملائیشیا سے درآمد کرتا ہے۔