سیلاب زدگان کے لیے امداد سست روی کا شکار، اقوام متحدہ

عالمی ادارے کے مطابق آٹھ سو سولہ ملین ڈالرامداد کی دوسری اپیل پراب تک صرف نوے ملین ڈالرجمع ہو سکے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ امداد کی کمی حکومت کی داغدار ساکھ کا نتیجہ ہے۔

سیلاب زدگان
ملک کے مختلف علاقوں سے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے خیمے اور غذائی اشیا بذریعہ ہیلی کوپٹر پہنچانے کی کوشش

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی ۔کی بنیادوں پر کام کرنے والے ایک ادارے اوسی ایچ اے نے کہا ہے۔ کہ بین الاقوامی برادری اور مختلف ممالک نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے جو وعدے کیے تھے۔ ان پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں کئی حلقے اس بات پر بحث کر رہے ہیں۔ کہ آیا یہ۔ امداد ۔اس وجہ سے نہیں ملی کہ حکومت پر بین الاقوامی برادری بھروسہ نہیں کرتی ہے۔ یا پھر اس کے عوامل کچھ اور ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہیومنیٹیرین کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے بارہ اکتوبر بروز بدھ یہ کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں نے پاکستان کے سیلاب زد گان کی مدد کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے۔ وہ اتنی تیزی سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے، جتنی تیزی سے وہ کچھ ہفتوں پہلے تک ہورہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صاف پانی اور صحت کی سہولیات کی مد میں خاطرخواہ امداد نہیں ملی۔ اور یہ کہ ڈبلیو ایچ او نے یہ پیش گوئی کی ہے۔ کہ جنوری دوہزار تیئیس تک پاکستان میں ملیریا کے 27 ملین کیسز ہو سکتے ہیں۔  انہوں نے مزید کہا کہ ملیریا کہ وجہ سے  پاکستان میں ہر سال پچاس ہزار افراد مرتے ہیں۔ اور ملیریا کے کیسز میں اضافے سے شرح اموات مزید بڑھ سکتی ہیں۔ جو بڑی تشویش ناک بات ہے۔

اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے 180۔ ملین ڈالر امداد کی جو پہلی اپیل کی گئی تھی۔ اس پر رکن ممالک نے بڑے متحرک انداز میں امداد دی لیکن آٹھ سو سولہ ملین ڈالر امداد کی اپیل پراب تک صرف 90 ملین ڈالر وصول ہوئے۔

 حکومت پر بھروسہ نہیں

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ بین الاقوامی برادری حکومت پر بھروسہ نہیں کرتی۔ پارٹی کے ایک رہنما فردوس شمیم نقوی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سندھ اور وفاقی حکومت کی کرپشن کے حوالے سے ساکھ بہت بری ہے اور بین الاقوامی برادری اس حوالے سے بہت اچھی طرح جانتی ہے۔ مثال کے طور پر فرانس میں پاکستان کے ساتھ ایک کاروباری ڈیل میں کرپشن کے انکشاف پر اعلیٰ عہدے داروں کو سزا دی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس حوالے سے کسی کو سزا نہیں دی گئی صرف منصورالحق کو پکڑا جاتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ اس کے ساتھ اورکون تھا۔‘‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.