پاکستان کی سمندری حدود میں چين کی غير قانونی فشنگ جاری

یہ اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے درمیان سب سے کمزور اور انتہائی غریب عوام، ترقی اور خوشحالی کے نام پر پسماندہ ہوجاتے ہیں۔

آجکل گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں جو ہورہا ہے۔ وہ اس تلخ حقيت کی بہترين مثال ہے۔ گوادر جو پاکستان کے سب سے بڑے اور پسماندہ صوبے کا ایک ساحلی شہر ہے۔ اور جہان کی آبادی کا زريعہ معاش ماہی گيری اور اس سے منسلک ديگر شعبے سے ہے ۔ گوادر کے ساحلی علاقوں ميں چین کی غیر قانونی ماہی گیری کشتیاں اپنا کاروبار پھيلا رہی ہيں۔ اور مقامی مچھيروں سے انکا روزگار چھين رہی ہیں۔

گوادر کی بندگاہ پر سخت سيکیورٹی تعينات ہے

خاندانی پيشہ

گوادر کے مکین نسل در نسل سے ماہی گيری کے پيشے سے منسلک ہيں۔ اور پسماندگی کے باعث وہاں نہ ہی تعليمی ادارے قائم ہيں اور نہ ہی انفرسکجر موجود ہے۔ يہ ماہی گير اپنا اور اپنے بچوں کا پيٹ پالنے کے ليۓ مہينوں سمندر ميں مچھليوں کا شکار کرتے ہيں۔ ان ماہي گيروں کے پاس نہ۔ ہی جديد کشتياں ہيں۔ اور نہ ہی جديد آلات اور يہ لوگ ان نامناسب حالات کے باوجود اس شعبے سے منسلک ہيں۔ کيونکے ان کے پاس ۔اسکے یلاوہ کچھ نہيں اورانکے ليۓ سمندر ہی سب کچھ ہے۔

ان تمام سرگرميوں کی وجہ چین اور پاکستان کے درميان چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پی ای سی) ۔جسے سی پيک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس تجارتی معاہدے جس پر بلوجستان اور۔ ملک بھر کی عوام کے تحفظات ہيں۔ اس کی وجہ اس ميں شامل وہ شرائط ہيں جو عام عوام سے پرشيدہ رکھی کئيں ہيں۔ مگر سامنے انے والی گچھ معلومات کے بقول چين کی کمپنيوں کو پاکستان کے اندربلا روک ٹوک ہر کام کرنے کی اجازت ہے۔

ماہی گير سمندر بڑی تعداد ميں اپنی کشتياں ساحل پر لے آۓ ہيں

حاليہ چند برسوں ميں چين کی پاکستان اور خاص کر بلوچستان ميں جاری سرگرميوں ميں اضافہ ہوا۔ اور اسکے باعث چينی فشنگ ٹرالرز نے بلوچستان ۔کے ساحلوں کا رخ کيا۔ گوادر کے خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ انک نظر ميں چین کی نظر پاکستان کی فشریز پر ہے۔

چينی حکومت کا موقف

ایک چینی سفارتکار کا اس اعلان نے کہ چین گوادر کی ماہی گیری کی صنعت کو بڑھاۓ گا ، پاکستان کے ساحلی شہروں کے ماہی گیروں کو خوفزدہ کردیا ہے۔، جو پہلے ہی کم شکار ہونے کی وجہ سے بدحالی سے گزر رہے ہیں. گوادر بندرگاہ کی ترقی – چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پی ای سی) کا ایک اہم جزو ہے۔ جو چین کو پاکستان سے جوڑتا ہے ۔لیکن کش سالوں سے یہاں کے رہنے والے مقامی ماہی گیروں۔ کو سمندر تک رسائی سے آہستہ آہتسہ محروم کيا جارہا ہے۔ اور دوسری جانب چین کے جديد فشنگ ٹرالرز کو پاکستانی پانيوں ميں ہر قسم کے شکار کی کھلی اجاذت دے دی گئی ہيں ۔اور وہ اس قسم کی الات کا استعمال کررہيں ہيں۔ جو اـی وسائل کو تباہ و برباد کررہا ہے۔

گوادر کی عوام اور ماہی گیروں نے بہت بار ان چینی کشتیوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ لیکن ان کی آواز کو اکثر حکومت چین کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی سرمایا کاری کی وجہ سے دبا دیتی ہے۔ بلوچستان کے ماہی گیر کئی سالوں سے چینی غیر قانونی ماہی گیری کشتیوں کے۔ خلاف احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں

ماہی گير کيا کہتے ہيں؟

فشرمین الائنس کے رہنماؤں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ سی پیک کے منصوبوں سے ماہی گیروں کو سمندر سے مچھلی پکڑنے سے روکا جائے گا ، جو صدیوں سے ماہی گیری برادری کے بہت سارے خاندانوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔
يہ بات لمحا فکريہ ہے کے چین پہلے پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری گوادر پورٹ اور – چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کی بدلوت پاکستان کی اقتصادیات پر قبضہ کر رہا تھا لیکن۔ اب پاکستان سمندروں پر بھی اپنے غیر قانونی ماہی گیری بحری بیڑے بھیج کرپاکستان کی ماہی گیری کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے
چین کے غیر قانونی ماہی گیری بحری بیڑے اتنے بڑے ہیں۔ کہ یہ ایک ہفتے میں اتنی مچھلی پکڑ لیتے ہیں۔ جو گوادر کے ماہی گیرایک سال میں بھی نہ پکڑ پائیں اگر ایسا مزید چلتا رہا تو نہ صرف پاکستانی ماہی گیر بھوکے مر جاییں گے بلکے پاکستان کی مچھلی کی صنعت تباہ و برباد ہو جائے گی۔

مقامی آبادی کی آمدنی کا دارومدار ماہی گيری اور اس سے منسلک ديگر شعبوں سے ہے

پاکستان کی حکومت اس تمام معاملے پر خاموش ہے جیسا کہ دیگر اور معملات پر جو چین سے جڑے ہوۓ ہیں۔ مقامی ماہی گیروں کے کونسلر حاجی خدا داد واجوکا کہنا ہے۔ کہ چین کے ٹرالر ہمارے مچھلی کے ذخیرے۔ ہڑپ کرجائیں گے تو ہمیں چینیوں سے کوئی سرمایہ کاری یا مدد نہیں چا ہیے۔ واجو کی طرح ، پاکستان کے 990 کلومیٹر ساحلی پٹی پر متعدد ماہی گیروں کو غیر منظم مقامی اور غیر ملکی ماہی گیری کے ٹرالروں جو “مچھلیوں کی نسل کشی کا سبب ہیں” کے تباہ کن اثرات نے بدحال کر دیا ہے ۔

مچھلياں سمندر سے ناپيد

مچھلیوں کے ذخائر پہلے ہی ختم ہونے کو ہیں اور اب چین کی اس غیر قانونی ماہی گیری کے اعلامیے نے سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں میں ماہی گیروں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ جہاں مچھلی پکڑنے والوں کی کم زکم 700،000 کی آبادی والی کمیونٹی تیزی۔ سے ختم ہوتے مچھلی کےوسائل کی وجہ سے زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
چین میں سمندری غذا کی بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ ، چین میں ماہی گیری کی دنیا کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ سمندری ماہرین کے مطابق چین کے گہرے پانی میں ماہی گیری کے بیڑے کا سائز 17،000 جہازوں پر مشتمل ہے ، جو کسی دوسرے ملک سے بہت زیادہ ہے۔

مچھليوں کی نسل تباہی کے نزديک

آبی ماہرین کی حالیہ تحقیق میں پیشن گوئی کی گئی ہے۔ کہ 2030 تک ، چین کو متوقع گھریلو استعمال کو پورا کرنے کے لئے 18 ملین ٹن اضافی سمندری غذا کی ضرورت۔ ہوگی اور یہ ضرورت وہ دور دراز پانیوں میں ماہی گیری کے آپریشنز کو بڑھا کر پورا کرے گا۔

اب ديکھنا يہ ہے کے يہ سلسلہ کب تک چلتا ہے، پاکستان ان دنوں شدید معاشی بحران سے گزررہا ہے۔ اور ملک ميں جاری مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، ايسے ميں مقامی سمندر سے حاصل کردہ مچھلی عوام کی غذائی طلب کو پورا کرنے کے ليۓ اہم ہے ليکن اس پر بھی چين کے کنٹرول نے۔ پاکستان کی عوام سے يہ سستی خوراک بھی چين لی ہے

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.