ایواٹار جیسی فلموں میں کرداروں کو حقیقت کا روپ دینے والی موشن کیپچر ٹیکنالوجی طبی محققین کو انسانی جسم کی حرکت کو متاثر کرنے والی بیماریوں کی ابتدا کے متعلق پتا لگانے میں مدد کر رہی ہے۔
ایسے بہت سے ۔کیسز میں جتنی جلدی مرض کی تشخیص ہو جائے اتنا ہی۔جلد مریض کا علاج ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ نیا نظام جسم کی حرکات کا تجزیہ کرنے کے لیے۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتا ہے۔
ڈاکٹر ریکوٹی امپیریل کالج اور یونیورسٹی کالج لندن کے محققین کے اس گروپ میں شامل تھیں۔ جنھوں نے نئی ٹیکنالوجی کو تیار کرنے میں 10 سال گزارے۔
ان تجربات کے دوران برطانیہ کے ماہرین نے۔ دو جینیاتی بیماریوں کی شدت کا اندازہ کسی بھی بہترین ڈاکٹروں کی نسبت دو گنا جلدی لگا لیا۔ محققین کا کہنا ہے۔ کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی مدد سے تشخیص کے وقت کو آدھا بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور کلینیکل ٹرائلز میں نئی ادویات تیار کرنے کے لیے۔ درکار لاگت کو بھی بہت کم کیا جاسکتا ہے۔
نتائج سے حيران
گریٹ اورمنڈ سٹریٹ انسٹی ٹیوٹ فار چائلڈ ہیلتھ کی ڈاکٹر ویلیریا ریکوٹی نے بی بی سی نیوز کو بتایا۔ کہ وہ ’نتائج سے مکمل حیران ہو گئیں۔ بیماریوں کی تشخیص سے لے کر لاتعداد بیماریوں کے لیے۔ نئی دوائیں تیار کرنے میں اس کے کئی فوائد ہو سکتے ہیں۔‘
انھوں نے دو الگ الگ تحقیقات میں فریڈریچ کے ایٹیکسیا (ایف اے) اور ڈوشینے مسکولر ڈئسٹروفی (ڈی ایم ڈی) کے مریضوں پر اس کا تجربہ کیا۔
محققین کا کہنا ہے۔ کہ اس کا استعمال مریض کی نقل و حرکت کو متاثر کرنے۔ والی دیگر بیماریوں سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی نگرانی کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان میں دماغ اور اعصابی نظام، دل، پھیپھڑوں، پٹھوں، ہڈی اور متعدد نفسیاتی امراض شامل ہیں۔
عموماً اس طرح کی بیماریوں کی شدت۔ اور ممکنہ طور پر بڑھتے مرض کا سراغ لگانے۔ میں کئی سال لگ سکتے ہیں کیونکہ عام طور پر کلینک میں اس مرض کی تشخیص۔ اور اس کے بڑھنے کی رفتار کو جانچنے کے لیے مریضوں کو چند معیاری حرکات انجام دینی ہوتی ہیں۔ اس کی تشخیص میں یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ مریض کو کس قسم کی مدد اور علاج کی ضرورت ہے۔
تحقیق کی دنیا میں ایک بڑی کامیابی
امپیریل کالج کے پروفیسر الڈو فیصل، ان سائنسدانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا خیال پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق کی دنیا میں ایک بڑی کامیابی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا یہ نیا طریقہ ان چھوٹی سے چھوٹی جسمانی حرکات کا پتہ لگاتا ہے جنھیں انسان عام طور پر محسوس یا جان نہیں سکتا۔ یہ ٹیکنالوجی کلینیکل ٹرائلز کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کی تشخیص اور نگرانی کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘
ایف اے نامی مرض عام طور پر بلوغت کے وقت ظاہر ہوتا ہے۔ اور 50,000 افراد میں سے کسی ایک کو متاثر کرتا ہے، جبکہ ڈی ایم ڈی عالمی سطح پر ہر سال 20,000 بچوں، زیادہ تر لڑکوں کو متاثر کرتا ہے۔ فی الحال دونوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔
طبی ماہرين کی راۓ
امپیریل کالج کی ایک ٹیم نے پہلے ایف اے کے مریضوں پر موشن سینسر سوٹ کا تجربہ کیا۔ انھوں نے پایا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے سے ہم ایک سال تک بیماری کے بگڑنے یا اس کی شدت میں اضافے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جبکہ یہ کسی بھی ماہر ڈاکٹر کی تشخیص کرنے سے۔ آدھا وقت کم ہے۔
گریٹ اورمنڈ سٹریٹ میں ماہرین کی ایک علیحدہ ٹیم نے پانچ سے 18 سال کی عمر کے ڈی ایم ڈی مرض کا شکار 21 لڑکوں پر ٹیکنالوجی کا تجربہ کیا۔ اس نے یہ پیشن گوئی کی کہ آئندہ چھ ماہ میں۔ ان کی نقل و حرکت پر کیا اثر پڑے گا۔ اور یہ کسی بھی ماہر ڈاکٹر کی تشخیص سے زیادہ جلدی اور درست تھا۔
محققین کا خیال ہے کہ ان کی اس ٹیکنالوجی کو نئی ادویات کی تیاری۔ میں کلینکل ٹرائلز کو تیز کرنے اور اس کی تیاری میں لاگت کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ وسیع پیمانے پر مختلف قسم کی بیماریوں کے لیے نئی ادویات کی جانچ ممکن بن سکے۔
خاص طور پر یہ بہت ہی مخصوص قسم کے جینیاتی امراض کے لیے نئی دوائیوں کے تجربات کو کم لاگت میں ممکن بنا سکتی ہے۔
یو سی ایل کے ایٹاکسیا سنٹر کے سربراہ پروفیسر پاولا گیونٹی نے کہا۔ کہ ’ہم کم مریضوں کے ساتھ کم قیمت پر زیادہ دوائیوں کا تجربے کر سکیں گے۔‘
ڈی ایم ڈی کے مرض کی صورت میں کسی نئی دوا کی تاثیر سے متعلق درست اعدادوشمار اور اہم نتائج حاصل کرنے کے لیے تقریباً 18 ماہ کے دوران کم از کم 100 مریضوں کی ضرورت ہوتی ہے۔جبکہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے یہ ممکنہ طور پر چھ ماہ کے دوران 15 مریضوں کے ساتھ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
گیم چینجر
میڈیکل ریسرچ کونسل کے لندن انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رچرڈ فیسٹنسٹین، جنھوں نے بھی اس ٹیکنالوجی کو تیار کرنے میں مدد کی ہے۔ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ موشن کیپچر سوٹ ٹیکنالوجی میں نئی ادویات کی دریافت کی لاگت اور معاشیات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو نایاب بیماریوں میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف راغب کرے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہماری تحقیق سے سب سے زیادہ فائدہ مریضوں کو ہو گا۔ کیونکہ ٹیکنالوجی سے بہت جلدی نئے طریقہ علاج اپنائیں جا سکیں گے۔‘
محققین پہلے ہی ایف اے اور ڈی ایم ڈی کے مرض کے لیے ڈرگ ٹرائلز کے لیے۔ موشن کیپچر کے استعمال کے لیے منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کی کامیابی کی صورت میں دو برسوں میں اس مرض کی ادویات کا استعمال شروع ہو سکتا ہے۔ وہ پارکنسنز، الزائمر اور ایم ایس کی بیماریوں میں بھی اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیے ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔
[email protected]
Junaid Chohan
You are write a good article about motion capture technology
Motion capture technology has revolutionized the way films, video games and other forms of media are created. It has enabled artists to create incredibly realistic visuals with a fraction of the time and cost it would have taken with traditional methods. But how does motion capture really work? In this article, we’ll explain the various aspects of motion capture technology and how it affects the way films, video games and other forms of media are created. We’ll also discuss the advantages and disadvantages of motion capture, and what the future of this technology looks like. Finally, we’ll provide resources and tips to help you get started with motion capture technology. By the end of this article, you’ll have a comprehensive understanding of this important technology and how it affects the way media is created today.
Motion capture technology has revolutionized the way movies and video games are made. It uses special cameras to track the movements of actors, allowing them to be replicated in the virtual world. Motion capture is used to create realistic animation, giving the viewer a realistic experience. Motion capture technology has been used in the making of films such as Avatar, and video games such as the Tomb Raider franchise.
The motion capture process starts with an actor wearing a special suit, which contains several sensors. As the actor moves, the sensors track their movements and send the data to a computer. This data is then fed into an animation program, which creates a digital version of the actor’s movements. This digital version can then be used to create realistic virtual environments and characters.
Motion capture technology has helped to create some of the most realistic and immersive digital experiences ever. It has made the creation of films and video games much easier, allowing filmmakers and developers to create realistic, dynamic worlds. Motion capture technology continues to evolve, with improvements in accuracy and realism. It is a powerful tool for bringing stories to life, and will continue to be an important part of the entertainment industry.