تاریک مادے اور توانائی سے بنی 95 فیصد کائنات سے پردہ اٹھانے کے لیے سائنسدانوں کا نیا منصوبہ

سویٹزرلینڈ میں دنیا کے سب سے بڑے پارٹیکل ایکسلریٹر، لارج ہیڈرون کولائیڈر (ایل ایچ سی) مادے پر کام کرنے والے محققین نے ایک نئے اور اس سے کئی گنا بڑے سُپر کولائیڈر کے منصوبے کا مجوزہ جمع کرایا ہے۔

سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی. 27 کلومیٹر طویل سرنگ میں قائم لارج ہیڈرون کولائیڈر میں سائنسدان ذرات کو آپس میں ٹکرا کر تخلیق کائنات کے راز سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

اس نئے منصوبے کا مقصد نئے ذرات کی دریافت ہے جس سے علم طبیعات میں انقلاب برپا ہو پائے گا. اور اس بارے میں مزید علم حاصل ہو سکے گا کہ کائنات کیسے کام کرتی ہے۔

اگر اس منصوبے کی منظوری ہو جاتی ہے. تو یہ نیا کولائیڈر ایل ایچ سی سے تین گنا بڑا ہو گا۔

لیکن اس کے لیے درکار 12 ارب پاؤنڈ (42 کھرب سے زیادہ پاکستانی روپے) کچھ لوگوں کے لیے تشویش کا باعث بن گیا ہے. اور ایک ناقد نے اس خرچے کو ’لاپرواہی‘ قرار دیا ہے۔

سرن

یہ مالیت صرف ابتدائی تعمیرات کی ہے. اور یہ ایل ایچ سی کے نگران ادارے سرن کے رکن ملک دیں گے۔ مگر کچھ ماہرین سوال کر رہے ہیں کہ اس مہنگے منصوبے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔

ایل ایچ سی کی سب سے بڑی کامیابی 2012 میں ایک نئے ذرے کی دریافت تھی جسے ہگز بوزون کا نام دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد اس منصوبے کو تاریک مادے (ڈارک میٹر) اور تاریک توانائی .(ڈارک انرجی) کو سمجھنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ محققین کی رائے ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے .کے اس سے سستے طریقے بھی موجود ہیں۔

علم طبیعات میں تاریک مادے اور ڈارک انرجی کی بہت اہمیت ہے۔

حیرت میں مبتلا

تاریک مادہ کائنات میں موجود اس مادے کو کہا جاتا ہے. کہ جس کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ کائنات میں نظر آنے والے مادے یعنی کہکشاؤں، ستاروں اور کہکشاؤں کے درمیان موجود خلائی دھول پر کششِ ثقل کے ذریعے اثر ڈالتا ہے۔ اور اس نے ایک عرصے سے سائنس دانوں کو حیرت میں مبتلا کیے رکھا ہے۔

جبکہ ڈارک انرجی توانائی کی وہ پُراسرار قسم ہے جو کہکشاؤں کے بیچ تیزی سے بڑھتی ہوئی کشش کے نتیجے میں انھیں ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔

نئی مشین کو ’فیوچر سرکیولر کولائیڈر‘ (ایف سی سی) کا نام دیا گیا ہے۔ سرن کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر فابیولا گیانوٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر اس کی منظوری دی گئی تو یہ ایک ’خوبصورت مشین‘ ہوگی۔

وہ کہتی ہیں ’یہ ایسا آلہ ہے جو ہماری کائنات سے متعلق معلومات بڑھائے گا اور طبیعات کے بنیادی سوالوں کے جواب جاننے میں مدد کرے گا۔ ان سوالات کے جواب کے لیے ہمیں زیادہ طاقتور آلہ چاہیے۔‘

سرن جنیوا کے قریب سوٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر واقع ہے۔ ایل ایچ سی ایک 27 کلومیٹر طویل دائرے کی شکل میں بنائی گئی سرنگ ہے۔ اس میں ایٹم میں موجود ہیڈرونز کی رفتار کو روشنی کی رفتار جتنا تیز بنایا جاتا ہے اور پھر ان کا ٹکراؤ کروایا جاتا ہے۔

ٹکراؤ کی وجہ سے بننے والے ذیلی ذرات کی مدد سے سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں. کہ ایٹم کس چیز سے بنا ہوا ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیسے روابط قائم کرتے ہیں۔

ایل ایچ سی اور ایف سی سی کا موازنہ

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.