جیمز ملر ایک ٹرانس ہیومینسٹ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بائیو ٹرانسفارمیٹو ٹیکنالوجیز جلد ہی ایسا ممکن بنا دیں گی کہ ہم ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکیں۔
صرف ایک مسئلہ ہے، اِس وقت وہ زندگی کی پانچویں دہائی کے وسط میں ہیں سو انہیں خدشہ ہے کہ اس یکسر تبدیل شدہ نئی دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے ہی وہ مر چکے ہوں گے۔
طویل عمری کا نسخہ
یہی وجہ ہے کہ ملر اس وقت تک زندہ رہنے کے لیے پرعزم ہیں جب تک ’طویل عمری کا نسخہ‘ حاصل نہیں کر لیا جاتا، ایک ایسے دور میں مستقبل کے ایک فرضی وقت کا خواب جب سالانہ بنیادوں پر متوقع عمر اس سے کہیں زیادہ رفتار سے بہتر ہو رہی ہے جس سے لوگ بوڑھے ہو رہے ہیں۔
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’میری عمر اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ میں با آسانی اس سے پہلے مر سکتا ہوں۔ اپنی زندگی کو تھوڑا سا مزید آگے بڑھانے سے میں واقعی میں اپنی عمر کے دورانیے پر زبردست فرق ڈال سکتا ہوں۔
’90 اور 80 کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے۔ اگر میں اُس وقت تک زندہ رہ سکتا ہوں۔ تو میرے پاس بہت لمبا جیون جینے کا موقع ہو گا۔‘
ملر مجھ سے کہتے ہیں کہ ہماری نسلیں یا تو تباہی کے دہانے پر ہیں۔ یا مصنوعی ذہانت کے ایسے دور رس عہد میں قدم رکھنے والی ہیں۔ جو دنیا بھر میں ہر چیز کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ سکتا ہے۔
ملر ایک امریکی کمپیوٹر سائنس دان اور مستقبل کے ماہر رے کرزوائل سے متاثر ہیں جن کا ماننا ہے کہ ہم اس نسل سے صرف ایک نسل کی دوری پر ہیں جسے ٹرانس ہیومینسٹ ’دی سنگولیرٹی‘ کہتے ہیں۔
سنگولیرٹی وہ لمحہ ہے جب کمپیوٹر اتنے ذہین ہو جائیں گے کہ اپنے بارے میں خود سوچ سکیں گے۔
اس وقت مصنوعی ذہانت کو ’محدود‘ دائرے کی حامل چیز سمجھا جا رہا ہے اور اب تک وہ اپنی بالکل ابتدائی حالت میں ہے، یہ انسانوں کا مقابلہ یا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے لیکن گیمز کھیلنے، مخصوص خطوط کی شناخت کرنے یا کھیلوں کے تجزیات جیسے چند مخصوص شعبہ جات میں۔
تباہی کے دہانے پر
کمپیوٹر سافٹ ویئر جو شطرنج کے گرینڈ ماسٹر کو شکست دے سکتا ہے وہ اپنے متعین الگوردم میں اس قدر سختی سے قید ہے کہ ڈرافٹ گیم میں حتیٰ کہ کسی بچے کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا۔
جب تک مصنوعی ذہانت اپنا دائرہ تمام شعبوں تک پھیلا نہیں سکتی اور مؤثر طریقے سے اپنے لیے سوچنا نہیں سیکھ لیتی تب تک یہ انسانی صلاحیتوں کا سنجیدگی سے مقابلہ نہیں کر پائے گی۔
تاہم کرزوائل کا اندازہ ہے کہ ہم 2030 تک ایک ایسا کمپیوٹر تیار کرنے۔ کے متوقع ہدف کی طرف رواں ہیں جس کی عمومی ذہانت کی سطح ایک انسان کے برابر ہو گی۔
تکنیکی ترقی کے معاملے میں وہ 1981 سے 86 فیصد درست شرح کے ساتھ پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ اور آج کل گوگل کے انجینیئرنگ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
اگر کرزوائل درست ہیں تو اس سطح کی حامل مصنوعی ذہانت والی کوئی ہستی ممکنہ طور پر بات چیت، تجزیہ، تصور اور منصوبہ بندی میں اپنا کردار اسی طرح ادا کر سکتی ہے جیسا ہم کرتے ہیں۔
وہ کوئی بھی کام سر انجام دے سکتی ہے جو ایک گریجویٹ انسان انجام دے سکتا ہے مگر اسے نیند کی ضرورت نہیں محسوس ہو گی، اسے بیت الخلا جانے کے لیے یا یونیورسٹی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے وقفہ نہیں لینا پڑے گا۔
انٹرنیٹ پر متن کے ہر ٹکڑے کو پڑھنے تک رسائی ملتے ہی مصنوعی ذہانت بہت جلد تمام انسانی معلومات تک پہنچ جائے گی۔
مصنوعی ذہانت
نظریاتی طور پر اس کی کوئی وجہ نہیں۔ کہ ہماری سطح کی عمومی ذہانت کی حامل مصنوعی ذہانت اپنی مزید کاپیاں تیار نہ کرے۔ اور ہزاروں ہم خیال اکائیوں کے سلسلے میں نہ رہے۔
اپنی خام کمپیوٹیشنل طاقت کا محض ایک حصہ اپنی ذہانت کو اپ گریڈ کرنے کے لیے۔ وقف کر کے ایسی مشین سیکھنے کے معاملے میں لامحدود صلاحیت کی حامل ہو گی۔
ممکنہ طور پر اگر سنگولیرٹی رونما ہوتی ہے۔ تو جیتے جاگتے نئے کمپیوٹرز کا نیٹ ورک اپنے نئے۔ خیالات براہ راست بانٹ سکے گا۔
اس کے بعد ترقی کی رفتار اتنی تیز ہو سکتی ہے۔ کہ ہمارے محدود سیدھے سادے ذہنوں۔ کو یہ سمجھنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔
کاگنیٹیو سائنس دان بین گرٹزل کے مطابق ایک انتہائی ذہین۔ دنیا کو سمجھنے کی کوشش انسانوں۔ کو تقریباً اسی پوزیشن میں ڈال دے گی۔ جیسے ایک کاکروچ میکرو اکنامکس میں۔ مہارت حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا ہو۔
[url=https://advair.ink/]order advair diskus[/url]