بلیک ہول: ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز میں واقع بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کر دی گئی

یہ وہ دیو ہیکل بلیک ہول ہے جو ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے کے مرکز میں ہے اور سائنسدانوں نے اب پہلی مرتبہ اس کی تصویر جاری کر دی ہے۔

سیجیٹیریئس اے٭ نامی یہ بلیک ہول ہمارے سورج سے زیادہ 40 لاکھ گنا زیادہ حجم رکھتا ہے۔

آپ کے سامنے جو تصویر ہے اس میں بیچ میں موجود سیاہ حصہ بلیک ہول ہے اور اس کے آس پاس انتہائی گرم گیسوں سے منعکس والی روشنی ہے۔ یہ گیسز بے پناہ کششِ ثقل کی وجہ سے گردش میں ہیں۔

یہ دائرہ ہمارے سورج کے گرد سیارہ عطارد (مرکری) کے مدار جتنا وسیع ہے یعنی تقریباً چھ کروڑ کلومیٹر۔

خوش قسمتی سے یہ ہماری زمین سے 26 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے چنانچہ ہمیں اس سے کبھی بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔

اگر ہماری آنکھیں ریڈیائی لہریں دیکھ سکتیں تو یہ بلیک ہول قریب سے کچھ ایسا نظر آتا۔

اس سے پہلے اسی ٹیم نے سنہ 2019 میں ایک اور کہکشاں ایم 87 کے مرکز میں واقع بلیک ہول کی تصویر جاری کی تھی۔ وہ بلیک ہول اس بلیک ہول سے بھی ایک ہزار گنا زیادہ بڑا اور ہمارے سورج سے ساڑھے چھ ارب گنا زیادہ حجم کا حامل ہے۔

ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ پراجیکٹ کے یورپی سائنسدان پروفیسر ہائنو فاک نے کہا کہ ’یہ نئی تصویر اس لیے خاص ہے کیونکہ یہ ہمارا اپنا انتہائی بڑا بلیک ہول ہے۔‘

نیدرلینڈز کی رادبود یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ان ڈچ جرمن سائنسدان نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ ہمارے اپنے عقبی دالان میں ہی ہے اور اگر آپ بلیک ہولز کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں تو یہی بلیک ہول آپ کو بتائے گا، کیونکہ ہم اس کا باریک بینی سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔‘

بلیک ہول

بلیک ہول کیا ہوتا ہے؟

  • بلیک ہول خلا میں ایک ایسا علاقہ ہوتا ہے جہاں مادہ لامحدود حد تک کثیف ہو جاتا ہے۔
  • یہاں کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز یہاں تک کہ روشنی بھی یہاں سے فرار نہیں ہو سکتی۔
  • بلیک ہولز کچھ انتہائی بڑے ستاروں کی زندگی کے دھماکہ خیز اختتام سے وجود میں آتے ہیں۔
  • کچھ بلیک ہولز ہمارے سورج سے اربوں گنا بڑے ہو سکتے ہیں۔
  • سائنسدان وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ کہکشاؤں کے مرکز میں پائے جانے والے یہ بلیک ہولز کیسے بنے
  • مگر یہ واضح ہے کہ یہ کہکشاں کو توانائی فراہم کرتے ہیں اور متحرک رکھتے ہیں، اور ان کی ارتقا پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

زمین سے 26 ہزار نوری سال فاصلے پر واقع یہ بلیک ہول اپنی دوری کے باعث آسمان پر شاید کسی سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا نظر آئے، اس لیے ایسے ہدف کی تصویر کشی کے لیے سائنسدانوں کو عام ٹیلی سکوپ سے کہیں زیادہ باریک ریزولوشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ نیٹ ورک نے اس کے لیے ویری لونگ بیس لائن انٹرفیرومیٹری (وی ایل بی آئی) نامی تکنیک کا استعمال کیا۔

اس میں کوئی ایک ٹیلی سکوپ نہیں استعمال کی گئی بلکہ ایک دوسرے سے بڑے فاصلوں پر موجود آٹھ ریڈیو اینٹیناز کو آپس میں منسلک کیا گیا تاکہ زمین کے سائز جتنی بڑی ایک ٹیلی سکوپ جیسے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

چنانچہ ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ کو اس سے اتنی ریزولوشن حاصل ہوئی کہ وہ مثال کے طور پر چاند کی سطح پر رکھے ایک ڈونٹ کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اس کے باوجود اٹامک گھڑیوں اور جدید ترین الگورتھمز کی مدد سے سپر کمپیوٹرز نے لاتعداد گھنٹوں تک کئی پیٹابائٹس (ایک پیٹابائٹ میں 10 لاکھ گیگابائٹ ہوتے ہیں) کے ڈیٹا میں سے ایک تصویر بنائی ہے۔

چونکہ بلیک ہول کے اپنے اندر سے کوئی روشنی باہر نہیں آ سکتی چنانچہ ایک سیاہ دھبے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ سکتا لیکن اس کے گرد موجود روشن مادوں کے دائرے (ایکریشن ڈسک) کو دیکھ کر سائنسدانوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بلیک ہول کہاں واقع ہے۔

بلیک ہول
،تصویر کا کیپشنٹیم نے اس تصویر کی رونمائی عالمی طور پر بیک وقت سات ایونٹس میں کی

اس دائرے میں موجود بے حد گرم گیسز یا پلازما بلیک ہول کے گرد روشنی کی رفتار سے کہیں کم رفتار سے گردش کر رہی ہیں۔ زیادہ روشن حصے ممکنہ طور پر وہ ہیں جہاں مادہ ہماری طرف آ رہا ہے۔

سائنسدان نئی حاصل شدہ تصویر کا بلیک ہولز سے متعلق ہماری فزکس کی موجودہ معلومات سے موازنہ کر رہے ہیں۔ اس وقت تک اُنھوں نے پایا ہے کہ یہ مکمل طور پر البرٹ آئن سٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت (تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی) کے فارمولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔

ایک طویل عرصے سے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ہماری کہکشاں کے عین مرکز میں ایک انتہائی بڑا بلیک ہول موجود ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ مرکز میں موجود ستاروں کو 24 ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ تک کی رفتار فراہم کرنے والی کششِ ثقل کا منبع کیا ہے۔

ہمارا سورج ہماری کہکشاں کے مرکز سے کافی دور ہے اور اس کی رفتار اس سے کہیں کم یعنی 230 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔

بلیک ہول
،تصویر کا کیپشنسیجیٹیریئس اے٭ کے قریب موجود ستاروں کی رفتار حیران کُن حد تک تیز ہوتی ہے

مگر اس کے باوجود جب نوبیل پرائز کمیٹی نے ماہرینِ فلکیات رائنہارڈ جینزل اور اینڈریا غیز کو سنہ 2020 میں سیجیٹیریئس اے٭ پر ان کے کام کے اعتراف میں فزکس کا نوبیل انعام عطا کیا تو بلیک ہول کے بجائے کہا گیا کہ ’ایک انتہائی بڑا اور کثیف جسم‘۔ یہ گنجائش اس لیے چھوڑی گئی تاکہ کہیں ان قدرتی عوامل کی کوئی اور توجیہہ نہ ہو۔

مگر اب اس حوالے سے کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔

رواں سال اگست میں نئی اور جدید ترین خلائی دوربین جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ سیجیٹیریئس اے٭ کا مشاہدہ کرے گی۔

اس ٹیلی سکوپ کی ریزولوشن اتنی تو نہیں کہ یہ اس بلیک ہول اور اس کے گرد موجود مادوں کے دائرے کی براہِ راست تصویر کشی کر سکے مگر اس کے بے انتہا حساس انفراریڈ آلات بلیک ہول کے آس پاس کے ماحول کے مطالعے کے لیے ہمیں نئی صلاحیت فراہم کریں گے۔

جیمز ویب
،تصویر کا کیپشنجیمز ویب خلائی دوربین کائنات کے ان رازوں سے پردہ اٹھائے گی جن سے ہم اب تک ناواقف ہیں

اس ٹیلی سکوپ کی بدولت ماہرینِ فلکیات بلیک ہولز کے پاس سے گزرنے والے سینکڑوں ستاروں کی فزکس کا بے نظیر تفصیل کے ساتھ مطالعہ کر سکیں گے۔

وہ یہ بھی تلاش کریں گے کہ کیا اس خطے میں ستاروں کے سائز کے کوئی بلیک ہولز موجود ہیں یا نہیں۔

اس کے علاوہ وہ اس تاریک مادے کے ٹکڑوں کو تلاش کرنے کی بھی کوشش کریں گے جسے ہم اب تک دیکھ نہیں پائے ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کی پروفیسر جیسیکا لو، جو جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کے اس مطالعے کی سربراہی کریں گی، کہتی ہیں کہ ’جب بھی ہمیں کوئی نیا آلہ ملتا ہے جو کائنات کی مزید باریک بینی سے تصاویر لے سکتا ہے تو ہم اس کی پہلی آزمائش ہماری کہکشاں کے مرکز پر کرتے ہیں اور ہمیں لامحالہ کچھ حیرت انگیز چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔‘

ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ کے یہ نئے نتائج سائنسی جریدے دی ایسٹروفزیکل جرنل لیٹرز کے خصوصی شمارے میں شائع ہو رہے ہیں۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.