تیل مصنوعات پر سبسڈی کا خاتمہ: کیا طویل مدت میں ملکی معیشت کے لیے صحیح اقدام ہے؟

پیٹرول پمپ پر موٹر سائیکل کی قطار میں ایک بائیک سوار جس کے کپڑوں پر سیمنٹ لگا ہوا تھا، آکر رکا اور جیب سے سو روپے کا سرخ نوٹ نکال کر پیٹرول ڈالنے کے لیے کہتا۔ جمعرات کے مقابلے میں آج اس نے زیادہ پیسے ادا کیِے۔

اسلام آباد کے جی نائن میں سروس روڈ پر واقع پی ایس او کے پمپ پر پیٹرول فی لیٹر 180 روپے تحریر ہے جبکہ جمعرات کو اس ہی بورڈ پر پیٹرول تیس روپے سستا تھا۔ حالیہ اضافے کے بعد پیٹرول کی قیمت فی لٹر 179 روپے 86 پیسے جبکہ ایک لیٹر ڈیزل کی قیمت 174 روپے 15 پیسے ہوگئی ہے۔

جاوید نامی اس مزدور نے بتایا کہ ویسے وہ دو سو روپے کا پیٹرول ڈلواتے تھے لیکن قیمتوں میں اضافے کے بعد وہ اس میں کمی لاتے گئے اور اب صرف سو روپے کا ڈولواتے ہیں اور احتیاط سے اس کا استعمال کرتے ہیں۔

مہناز نامی خاتون کے بقول پہلے جب پانچ دس روپے فی لیٹر قیمت بڑھتی تھی تو ’دنیا عمران خان کو کوستی تھی۔ موجودہ حکمرانوں نے کوئی ریلیف نہیں دیا اور تیس روپے اضافہ کر دیا۔ میں ایک ٹیچر ہوں، پانچ بچے ہیں۔ کرائے کا مکان ہے اور گھر کا بجٹ چلانا بڑا مشکل ہے۔‘

محمد امین سبزی فروخت کرتے ہیں اور برف بھی لگاتے ہیں۔ وہ موٹر سائیکل پر اپنے بیٹے کے ساتھ تیل لینے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دن بدن قیمت میں اضافے سے مہنگائی بڑہ چکی ہے۔ وہ زیادہ کام کر رہے ہیں، اوور ٹائم لگا رہے ہیں اور بس خود کو کام میں ہی مصروف رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے باقی کچھ نہیں کر پا رہے ہیں اور بہت ہی مشکل سے گذارا ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’مزدوری و تنخواہ تو نہیں بڑہ رہے بس اخراجات بڑہے جا رہے ہیں۔‘

محمد عثمان نامی شخص نے بتایا کہ وہ سیلز مین ہیں۔ انہیں 32 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جس میں کرائے کا گھر، بچے، ان کے سکول و ضروریات ہیں اور موٹر سائیکل ہے، ’اب کیسے گزارا کیا جائے؟‘۔

ممتاز اعوان ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ توقع تھی کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی لیکن اس میں پانچ یا دس روپے کے اضافے کا امکان تھا لیکن تیس روپے کا تو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ ’اس صورتحال میں گھر کا بجٹ سنبھالنا بڑا مشکل ہے کیونکہ آمدنی کے اتنے ذرائع نہیں ہیں حالیہ اضافے سے غریبوں کا معیار زندگی مزید نیچے چلا جائیگا

رفیق اقبال کا خیال ہے کہ صورتحال کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’حکمران اپنے اخراجات میں کمی لائیں، لگژری زندگی نہ گزاریں، لوگ ٹیکس ادا کریں اور باہر سے پیسہ لایا جائے۔ اب یہ پیسہ جو لوٹا گیا ہے وہ لایا جائے یا پھر صنعتیں چلیں اور باہر سے پیسہ آئے ورنہ یہ ملک نہیں چل سکے گا اور ڈفالٹ ہوجائے گا‘۔

محمد شفیق محکمہ ہیلتھ میں ویکسینیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں اور انھیں بچوں کو پولیو اور دوسرے امراض سے نجات کے لیے مختلف علاقوں میں گھر گھر جانا پڑتا ہے۔ محمد شفیق مختلف علاقوں میں گھر کی دہلیز پر بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کے لیے موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ماہانہ پچیس سے 30 لیٹر پیٹرول خرچ ہوتا ہے اور یہ خرچ انھیں اپنی جیب میں سے ادا کرنا پڑتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں 30 روپے اضافے سے ان کا تیل کا خرچہ 750 روپے سے 1000 روپے تک بڑھ جائے گا۔ محمد شفیق نے کہا کہ ایک جانب ان کے موٹر سائیکل میں استعمال ہونے والے پیٹرول کا خرچ بڑھ جائے گا تو دوسری جانب دوسری ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیٹرول کے ساتھ ڈیزل کی قیمت میں بھی 30 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے، جس سے ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ جائیں گے اور اس کا براہِ راست اثر عام افراد پر پڑے گا کیونکہ ٹرانسپورٹر سے لے کر دکاندار تک نے قیمت گاہگ سے ہی وصول کرنی ہے۔

محمد شفیق ملک میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کے بڑھنے سے متاثر ہونے والے کروڑوں عام افراد میں شامل ہیں۔

وفاقی حکومت نے جمعرات کی رات ملک میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا جو ملکی تاریخ میں ایک بار میں کیا جانے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ مجبوری کی وجہ سے لیا کیونکہ تیل مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے اور ابھی بھی حکومت نے سبسڈی جزوی طور پر ختم کی ہے اور تیس روپے فی لیٹر اضافے کے بعد بھی حکومت عوام کو سستے پیٹرول و ڈیزل کے لیے اپنی جیب میں سے پیسے دی رہی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے تیل مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے اور قیمتیں بڑھانے کے فیصلے سے ایک جانب عام آدمی شدید متاثر نظر آتا ہے تو دوسری جانب یہ سوال ہو رہا ہے کہ اس فیصلے کو ملک کی معاشی صورت حال کے لیے طویل مدت میں بہتر قرار دیا جانا کس حد تک درست ہے؟

اس سوال کے جواب سے پہلے ایک نظر دیگر عوامل پر ڈالتے ہیں۔

پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کیسے متاثر ہوگا؟

وفاقی حکومت کے فیصلے کے تحت پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر اضافے کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح کے بڑھنے کا امکان ہے۔

پاکستان میں ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے مہینے میں مہنگائی کی شرح ساڑھے تیرہ فیصد کے قریب تھی۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح سولہ سے سترہ فیصد ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح جانچنے کی باسکٹ میں مختلف شعبوں کو دیکھا جائے تو اس میں تقریباً 35 فیصد خوردنی اشیا کا وزن ہے جبکہ ٹرانسپورٹ کے شعبے کا حصہ تقریباً چھ فیصد ہے۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ معاشرے کے وہ افراد زیادہ متاثر ہوں گے جو مالی طور پر کمزور طبقات ہیں اور اس کے ساتھ اربن مڈل کلاس اس اضافے سے زیادہ متاثر ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں دو کروڑ رجسٹرڈ موٹر سائیکلیں ہیں اور پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے ان کا فیول خرچہ بڑھ جائے گا۔

ماہر معیشت حزیمہ بخاری نے بی بی سی نیوز اردو کو بتایا کہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح بڑھے گی۔ انھوں نے بتایا کہ اس اضافے سے مہنگائی کی شرح میں تین سے چار فیصد کا اضافہ ہو جائے گا اور معاشرے کے وہ افراد جو مالی طور پر کمزور ہیں وہ اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہوں گے۔

حزیمہ بخاری کے مطابق ایک عام فرد کا بجٹ مہنگائی کی نئی لہر سے بُری طرح متاثر ہوگا اور ان کے لیے شاید اب ضروریات زندگی پورا کرنا مشکل ہو جائے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے اس سلسلے میں بتایا کہ ڈیزل و پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے لازمی طور پر عام فرد بہت زیادہ متاثر ہوگا کیونکہ ناصرف ذاتی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا خرچہ بڑھ جائے گا بلکہ گڈز ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھنے سے عام ضروریات کی چیزیں بہت زیادہ مہنگی ہو جائیں گی۔

ایک فوڈ کمپنی میں مینیجر پروکیورمنٹ کے عہدے پر کام کرنے والے محمد امین نے بتایا کہ جمعے کی صبح جب انھوں نے مال کی ڈیلیوری کے لیے گاڑیوں کے ریٹ معلوم کیے تو کراچی سے لاہور اور اسلام آباد جانے والی گاڑیاں بیس سے تیس ہزار روپے زیادہ کرایہ طلب کر رہی تھیں۔

ڈاکٹر نجیب نے بتایا کہ عام آدمی کو پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے بچانے کے لیے حکومت کو فوری اقدام اٹھانے پڑیں گے، جس میں وفاقی حکومت کے انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اہل خاندانوں کے ساتھ رکشہ، موٹر سائیکل اور زرعی مقاصد کے لیے چلنے والے ٹیوب ویل پر سبسڈی دینا ہو گی تو دوسری جانب حکومت کو ٹول پلازوں پر گڈز ٹرانسپورٹ سے لیا جانے والے ٹول کو ختم یا کم کرنا چاہیے تاکہ گڈز ٹرانسپورٹ ڈیزل کی بڑھی ہوئی قیمت کا پورا اثر لوگوں تک منتقل نہ کریں۔

حکومت نے تیل مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا اقدام کیوں اٹھایا؟

پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے تیس روپے فی لیٹر تیل مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ملکی تاریخ میں ایک بار میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب اس اقدام کو مجبوری کی حالت میں اٹھایا جانے والا اقدام قرار دیا گیا ہے۔

دنیا میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سابقہ حکومت نے اس سال یکم مارچ سے ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں کو منجمد کر دیا تھا۔ تاہم ڈیزل کی 144.15 اور پیٹرول کی 149.86 روپے فی لیٹر پر فراہمی کے لیے حکومت کو خزانے سے سبسڈی دینا پڑتی تھی۔

مارچ میں حکومت کو 33 ارب روپے، اپریل میں ساٹھ ارب روپے اور مئی میں ایک سو بیس ارب روپے کے لگ بھگ سبسڈی ادا کرنی پڑی۔

پٹرول کی قیمت

ایک جانب حکومت کو خزانے سے اربوں روپے ماہانہ کی سبسڈی ادا کرنی پڑ رہی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی بحالی کو تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے سے مشروط کر رکھا ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے معطل ہونے سے پاکستان کے لیے دوسرے عالمی اداروں سے بھی فنڈنگ رکی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب نے بتایا کہ پاکستان میں ماہانہ وفاقی حکومت چلانے کا خرچ چالیس ارب روپے جب کہ تیل پر دی جانے والی سبسڈی کی مالیت ماہانہ بنیادوں پر 118 روپے تک پہنچ گئی جو حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے اور پاکستان کے مالیاتی خسارے کو بڑھا رہی ہے۔

ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ ماہانہ بنیادوں پر سبسڈی کی جو مالیت بنتی ہے اس حساب سے ملک کو سالانہ بنیادوں پر بارہ سو ارب روپے کی سبسڈی ادا کرنا پڑتی ہے جب کہ وفاقی حکومت کا سالانہ خرچہ چار سو ارب روپے ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ بارہ سو ارب کا نقصان اس ملک کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جس کا بجٹ خسارہ اس مالی سال کے اختتام پر پانچ ہزار ارب روپے ہو جائے گا جبکہ آئی ایم ایف پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ خسارے کو 3500 ارب روپے کی حد تک لے کر آئیں۔

پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کے بڑھنے کا طویل مدتی اثر کیا ہوگا؟

ماہرین معیشت کے مطابق ملک کی معاشی حالت تیل مصنوعات پر دی جانے والی ماہانہ اربوں کی سبسڈی کا متحمل نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ سے ملک کے بجٹ کا خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بھی پاکستان کے قرضے پروگرام کی بحالی کو روک رکھا ہے۔

ماہرین کے مطابق تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی تو متاثر ہوگا تاہم طویل مدتی پالیسی کے تحت اگر اسے دیکھا جائے تو یہ ملک کی معاشی صورتحال کے لیے بہتر ہے کہ ملک کا بجٹ کا خسارہ کم ہوگا اور اس کا مثبت اثر عالمی مالیاتی اداروں سے فناننسگ حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔

تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جمعے کو پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھی گئی جبکہ دوسری جانب سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی کا رجحان دکھائی دیا۔

ایکسچینج کمپنیز آف ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق اس کی وجہ سبسڈی کے جزوی طور پر خاتمے کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا امکان ہے، جس کا مثبت اثر کرنسی اور سٹاک مارکیٹ پر پڑا۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا حکومت کی جانب سے ڈیزل و پیٹرول کی سبسڈی جزوی طور پر ختم کرنے ا ور اس کی قیمتیں بڑھانے کے بارے میں کہتے ہیں کہ جو سبسڈی ابھی موجود ہے وہ بھی آنے والے دنوں میں ختم ہو جائے گی کیونکہ پاکستان کو بجٹ بنانے کے لیے پیسے چاہییں اور یہ آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

انھوں نے کہا پاکستان کو موجودہ مالی سال کے اختتام تک سات ارب ڈالر بیرونی ادائیگیوں کے لیے چاہییں جبکہ اگلے سال کے لیے 30 ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔

ان کے مطابق اس رقم کے ہونے سے پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے میں استحکام آئے گا اور یہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف سے ملنے والے چند ارب ڈالر نہیں ہیں بلکہ دوسرے مالیاتی اداروں سے ملنے والے پیسے بھی ہوں گے، جو کسی ملک کو پیسے دینے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ سبسڈی کے خاتمے سے مالیاتی خسارہ کم ہوگا اور ملک کے بیرونی شعبے میں ادائیگیوں کو سہارا ملے گا کیونکہ اس سبسڈی کی صورت میں پیسے پاکستان آئیں گے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب نے بتایا کہ جب سبسڈی دی جاتی ہے تو ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے اور اس کے خاتمے سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو ملک کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.