دیامیر: دو دوست جنھوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر سیلابی ریلے میں پھنسی بچیوں کی جانیں بچا لیں

’ہمیں اگر بچیوں کو مدد فراہم کرنے میں صرف پانچ منٹ کی مزید تاخیر ہوتی تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ بچیوں کو کنارے پر محفوظ مقام پر پہنچانے کے پانچ منٹ بعد اس جگہ پر بھی پانی پہنچ گیا تھا جہاں پر بچیاں پانی کے درمیان پتھروں پر موجود تھیں۔‘

یہ کہنا تھا کہ ضلع دیامیر کی وادی کنبری سیر کے رہائشی محمد عاصم کا جن کی ایک ویڈیو ان کے ایک دوست محمد جواز کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ دو کم عمر بہنوں کو انتہائی خطرناک اور تیز ترین سیلابی ریلے کی زد میں آنے سے پہلے محفوظ مقام تک پہنچاتے ہیں۔

وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں بچیاں تیز سیلابی ریلے کے درمیان میں ایک پتھر پر موجود ہیں، سیلابی ریلہ ان کے دونوں طرف تیزی سے بہہ رہا ہے جس میں پتھر، مٹی اور لکڑی بھی موجود ہے اور پانی کی سطح لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔

وائرل ہونے والی ایک اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو نوجوان رسیوں کی مدد سے سیلابی ریلے سے گزر کر بچیوں تک پہنچتے ہیں اور اپنی جان پر کھیل کر دونوں بچیوں کو رسیوں سے باندھ کر کنارے پر محفوظ مقام تک پہنچاتے ہیں۔

رسیاں باندھ کر بپھرے ہوئے پانی میں سے بچیوں کو محفوظ مقام تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس میں واضح طور پر دونوں نوجوانوں نے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگایا۔ اس دوران ایک مرتبہ باندھی جانے والی رسی بھی ٹوٹ گئی تھی۔

سیلاب

’ایک غلطی موت کے منھ میں دھکیل دیتی‘

محمد جواز کہتے ہیں کہ وہ واقعے سے تھوڑی دیر پہلے ہی اپنی گاڑی پر واپس پہنچے تھے۔ اس دوران اُنھوں نے دیکھا کہ انتہائی تیز سیلابی ریلہ ہے، اس کی وڈیو بنانی شروع کر دی۔ وہ اپنے گھر کا رخ کرنے لگے تھے کہ کسی بچے نے آواز دے کر کہا کہ سیلاب کے درمیان میں دو بچیاں پھنس چکی ہیں اور علاقے کے لوگ وہاں پر موجود ہیں۔

محمد جواز کا کہنا تھا یہ سن کر وہ فوراً موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ عاصم بھائی رسی کی مدد سے بچیوں کے پاس پہنچ چکے تھے مگر ان کے لیے اکیلے بچیوں کو رسیوں سے باندھ کر محفوظ مقام پر منتقل کرنا مشکل ہو رہا تھا، اس موقع پر ان کی اپنی جان بھی خطرے میں پڑ چکی تھی۔

’میں تھوڑی بہت تیراکی جانتا ہوں۔ یہ بھی جانتا ہوں۔ کہ یہ نالہ جو دریائے سندھ سے جا کر ملتا ہے۔ انتہائی خطرناک ہے اور سیلابی ریلے کے دوران تو بہت ہی خطرناک ہو جاتا ہے۔ اس وقت پانی بھی بہت تیز چل رہا تھا۔ اتنا تیز کے اس میں پتھر بھی بہہ رہے تھے۔‘

’مگر یہ ایک نازک موقع تھا۔ بچیوں کی جانیں بچانا بھی لازم تھا۔ بس اللہ کا نام لے کر۔ رسی کی مدد سے عاصم بھائی کے پاس پہنچ گیا۔ جب عاصم بھائی کو میری مدد ملی تو ہم دونوں نے مل کر بچیوں کو بچا لیا۔‘

محمد عاصم کہتے ہیں کہ رسیاں باندھنے اور پھر بچیوں کو محفوظ کرنے میں کوئی ایک گھنٹہ لگا اور اس دوران ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔

’ماں دہائیاں دے رہی تھی‘

علاقے کے رہائشی 20 سالہ محمد عاصم کہتے ہیں کہ سیلابی ریلہ آنے سے پہلے دونوں بچیاں نالے کے پاس دیگر بچوں کے ہمراہ کھیل رہی تھیں۔ جس مقام پر وہ پھنسی تھیں عموماً اس کے کنارے پر بچے کھیلتے کودتے اور نہاتے رہتے ہیں۔

’پہلے چند منٹوں کی موسلا دھار بارش ہوئی۔ اس دوران باقی بچے تو شاید چلے گئے مگر یہ دونوں کسی وجہ سے وہاں ہی رک گئیں۔ بارش کے بعد سیلابی ریلہ آیا۔ میں بھی اپنے گھر سے باہر نکلا کہ سیلابی ریلہ دیکھتے ہیں اور اس کی ویڈیو وغیرہ بناتے ہیں کہ بعد میں سوشل میڈیا پر شیئر کریں گے۔‘

سیلاب

محمد عاصم کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے گھر کے قریب ویڈیو بنا ہی رہا تھا کہ شور سنا کہ بچیاں سیلاب میں پھنس گئی ہیں۔ اس مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ لوگ اکھٹے تھے اور بچیاں سیلاب کے درمیان پھنسی ہوئی تھیں۔ ہر کوئی صلاح مشورہ کر رہا تھا کہ کیا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے خطرناک ترین سیلابی ریلہ تھا۔

’میں نے چند لمحوں تک صورتحال کا جائزہ لیا تو ایک دم سمجھ میں آ گیا کہ اوپر کے علاقے سے آنے والا پانی لمحہ بہ لمحہ تیز اور زیادہ ہو رہا ہے اور وہاں پر چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اُنھیں تیراکی آتی ہے، اس لیے رسی لائی گئی اور ۔رسی کو اُن کے ساتھ باندھا گیا اور اس موقع پر اس کو کھینچا گیا تو وہ ٹوٹ گئی۔

یہ بھی پڑھیے

سُمِت کو ڈوبنے سے بچاتے ہوئے فرقان نے جان گنوا دی

’اپنے بچوں کے بارے میں سوچتا تو شاید اتنے لوگوں کو نہ بچا پاتا‘

’شروع کے چند ’مایوس کن‘ سیکنڈ کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اس نے پلک جھپکی‘

’جب رسی ٹوٹی مجھے بے انتہا مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وقت کم تھا اور پانی بڑھ رہا تھا۔ دوبارہ دوسری رسی لگائی گئی اور دوبارہ رسی کے ساتھ باندھا گیا اور اچھے سے تسلی کی گئی کہ رسی ٹوٹے گئی تو نہیں مگر وہ مضبوط رسی تھی۔ جس کے بعد جب اس یخ بستہ انتہائی تیز رفتار پانی میں تیراکی شروع۔ کی تو چند ہی لمحوں میں میرے آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا تھا۔

سیلاب

’مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اوپر سے تیز رفتار پانی ہر تھوڑی دیر بعد۔ مجھے ادھر سے ادھر پھینکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس دوران بس میں اپنی ہمت کو یک جان کر کے پورا زور لگا کر سیدھا تیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ تیرتے ہوئے مجھے 20 منٹ ہوئے ہوں گے، مگر جب میں بچیوں کے پاس پہنچا تو میرے جسم میں طاقت نہیں تھی۔ سردی سے برا حال ہو رہا تھا۔

’مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں گھنٹوں تیرتا رہا ہوں۔ اس موقع پر میں نے کوشش کی رسی کو باندھ کر بچیوں کو رسی کے ذریعے سے دوسری طرف بھیج دوں مگر جسم میں طاقت ختم ہو رہی تھی اور سردی بڑھ رہی تھی۔ جس پر میں نے مدد کا کہا تو تھوڑی دیر بعد جواز بھائی پہنچ گئے تھے۔‘

’زندگی اور موت کی جنگ‘

محمد جواز کہتے ہیں کہ جب وہ عاصم کے پاس پہنچے۔ تو اُن کی حالت بھی بری ہو گئی تھی۔

’ہم دونوں کے درمیان اس موقع پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ شاید بات کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ بس ہم دونوں کی نظریں ملیں اور ہم نے بچیوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کے لیے مل کر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ واضح طور پر یہ زندگی اور موت کی جنگ تھی۔ اس میں اب اُن کی اپنی زندگیاں بھی داؤ پر لگ چکی تھیں۔ ’ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا تھا۔۔۔صرف پانچ منٹ کی تاخیر سے بچیوں کی زندگی کو خطرہ تھا۔ ہم نے اپنی ہمت اور طاقت کو یکجا کرنے کے بعد پہلے ایک بچی کو رسی سے باندھ کر محفوظ مقام پر بھیجا۔‘

’جب پہلی بچی محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گئی تو پھر دوسری بچی کو بھی اس طرح روانہ کیا جب وہ بھی محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گئی تو ہم نے بھی واپسی کا سفر تیر کر نہیں بلکہ رسی کے ذریعے ایک ایک کر کے کیا تھا۔‘

محمد عاصم کہتے ہیں کہ جب وہ محفوظ مقام پر پہنچے۔تو اُنھیں شدید سردی لگنی شروع ہو گئی تھی۔ وقت ضائع کیے بغیر وہ خود کو گرم کرنے کے لیے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بعد میں ہمیں علاقے کے لوگوں نے بتایا تھا کہ اس کے کوئی پانچ منٹ بعد سیلابی ریلہ اس مقام تک بھی پہنچ گیا تھا جہاں بچیاں موجود تھیں۔‘

بہادری کا سرکاری سطح پر اعتراف

ان دونوں نوجوانوں کی اس بہادری کا اعتراف گلگت بلتستان حکومت نے سرکاری سطح پر کیا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے ترجمان امتیاز علی تاج کے مطابق۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے دونوں نوجوانوں کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے لیے فی کس دو لاکھ روپے نقد انعام اور سرکاری اعزاز سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔

امتیاز علی تاج کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر جو کام ان نوجوانوں نے کیا ہے یہ بہت بہادری کا کام ہے۔ انھوں نے اپنی جان خطرے ڈالی اور دو معصوم جانوں کو بچایا ہے۔ دونوں نوجوان ہمارا فخر اور ’ماتھے کا جھومر‘ ہیں۔

تبصره

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.