ستلج کے کنارے ملنے والی نایاب دھات ’ٹینٹلم‘ کیا ہے جس کی بنیاد پر انڈیا کے مالا مال ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں

انڈیا میں پنجاب کے علاقے میں دریائے ستلج کے پاس سے ایک ایسی دھات دریافت ہوئی ہے. جو ملک کو الیکٹرانکس کی عالمی صنعت کا مرکز بنا سکتی ہے۔

انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین کی ایک ٹیم نے گذشتہ ہفتے ریاست پنجاب میں دریائے ستلج کے کنارے پر موجود ریت میں الیکٹرانک اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے والی نایاب دھات ٹینٹلم کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے۔

یہ دریافت انسٹیٹیوٹ کے سول انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریسمی سبیسچیئن کی سربراہی میں ایک ٹیم نے کی۔ ڈاکٹر سیباسٹین نے انڈین ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ انسٹیٹیوٹ سے منسلک محققین ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے. جب انھوں نے حادثاتی طور ستلج طاس سے جمع کیے گئے مٹی اور ریت کے نمونوں میں دھات کی موجودگی پائی۔

مگر دعوؤں کے مطابق ٹینٹلم نامی جس دھات کی موجودگی کو دریافت کیا گیا ہے. وہ کیا ہے اور اسے کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ٹینٹلم کیا ہے؟

ٹینٹلم ایک بہت ہی نایاب دھات ہے۔ سرمئی رنگ کی یہ دھات بہت سخت ہوتی ہے اور قدرتی وجوہات کی وجہ سے یہ دھات باآسانی تحلیل نہیں ہوتی یعنی یہ دوسری دھاتوں کی طرح تیزی سے زائل نہیں ہوتی۔

جب ہوا اس دھات کی سطح سے رابطے میں آتی ہے، تو اس پر آکسائیڈ کی تہہ خود بخود بن جاتی ہے، اور پھر ٹینٹلم بالکل بھی زائل نہیں ہوتا۔

ٹینٹلم کو ابتدائی طور پر پانی کے ٹینک اور پل بنانے کے لیے. استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن 20ویں صدی کے اوائل میں اس کی توانائی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت دریافت کی گئی، اور پھر اسے اعلیٰ کارکردگی والے کیپسیٹرز بنانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

انڈیا

اسی دھات کی وجہ سے چھوٹے حجم کے فون، لیپ ٹاپ اور ہارڈ ڈرائیوز کو تیار کرنا ممکن ہوا، جو آج ہمارے ہاتھ میں سما سکتے ہیں۔

ٹینٹلم کب دریافت ہوا؟

یہ دھات سب سے پہلے سنہ 1802 میں ایک سویڈش کیمیا دان اینڈرس گسٹاف ایکن برگ نے دریافت کی تھی۔

پہلے تو کسی نے یہ قبول نہیں کیا کہ یہ ایک نئی دھات ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا. کہ یہ نیبیم کی ایک مختلف شکل ہو سکتی ہے. جو ٹینٹلم کی طرح دکھائی دیتی ہے۔

یونانی افسانوں میں، ایک بہت ہی امیر لیکن بدکردار بادشاہ تھا. جس کا نام ٹینٹلس تھا۔ یونانی دیوتا زیوس نے ٹینٹلس کو زندگی بھر پانی میں گھٹنے ٹیکنے کی سزا سنائی۔

اس کے سر پر ایک درخت تھا اور جب ٹینٹلس اس کا پھل کھانے کی کوشش کرتا تو درخت شاخ کو کھینچ لیتا اور جب وہ پانی پینے کی کوشش کرتا تو جھیل کا پانی خشک ہو جاتا۔

اور اسی وجہ سے اس دھات کو ٹینٹلم کا نام دیا، کیونکہ یہ دھات تیزاب میں زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتی ہے۔

امریکی محکمہ توانائی کے مطابق ٹینٹلم کے تیزاب میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی خصوصیت کے لیے ہی یہ نام اس دھات کو دیا گیا۔

انڈیا

واضح رہے کہ کولٹن دو دھاتوں، نیوبیم اور ٹینٹلم کا مرکب ہے. اور کانگو میں اس کے وافر ذخائر موجود ہیں۔

اس لیے وہاں کے باغیوں نے اس کولٹن میٹل کو استعمال کر کے کانگو کی خانہ جنگی کے دوران مالی امداد حاصل کی۔ غیر قانونی طور پر کان کنی کے بعد زیادہ تر کولٹن چین کو فروخت کر دیا جاتا تھا۔

ٹینٹلم کے استعمال کیا ہیں؟

ٹینٹلم بنیادی طور پر الیکٹرانکس کی صنعت میں استعمال ہوتی ہے۔ ٹینٹلم سے بنے کیپسیٹرز کسی بھی دوسری قسم کے کپیسیٹر سے زیادہ بجلی ذخیرہ کرتے ہیں. اور اس لیے چھوٹے الیکٹرانک آلات میں بڑے پیمانے پر ان کا استعمال ہوتا ہے۔

یہ دھات کافی زیادہ درجہ حرارت پر جا کر پگھلتی ہے، تقریباً 3017 ڈگری سیلسیس پر۔ اس لیے اسے اکثر کیمیائی پلانٹس، نیوکلیئر پاور پلانٹس، ہوائی جہازوں اور میزائلوں کے پرزے بنانے کے لیے. استعمال کیا جاتا ہے۔

بعض جگہوں پر اسے مہنگے پلاٹینم کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے انسانی جسم میں کولہے کی تبدیلی جیسی سرجریوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جہاں آپ کے جسم میں دھات کے حصے کو داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

سول انجینئرنگ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریسمی سبیسچیئن کی اس ٹیم کے سربراہ تھے جس نے دریائے ستلج میں اس دھات کی دریافت کی ہے۔

انھوں نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے. امید ظاہر کی کہ مستقبل میں اس پر مزید تحقیق کی جائے گی۔

ان کے مطابق ’اگر ایسا ہوتا ہے تو مزید ذخائر مل سکتے ہیں. جس سے ناصرف انڈین پنجاب بلکہ پوری انڈین الیکٹرانکس انڈسٹری کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.