مفتی تقی عثمانی پر حملے میں ملوث عسکریت پسند گرفتار

محکمہ انسداد دہشت گردی سندھ نے ہفتے کو کہا ہے کہ پاکستان کے مفتی اعظم تقی عثمانی پر حملے میں ملوث دشمن انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے. کام کرنے والے اور زینبیون بریگیڈ سے منسلک ایک اہم عسکریت پسند کو کراچی سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔

ترجمان سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا. کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر سولجر بازار کے علاقے میں آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے. ملزم محمد مہدی کا تعلق زینبیون بریگیڈ سے ہے، جو کہ پڑوسی ملک کے لیے بھی کام کرتا ہے۔

ہائی ویلیو ٹارگٹس

ترجمان کے مطابق: ’ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ ہائی ویلیو ٹارگٹس کی ریکی کرتا تھا، جس کی اطلاع وہ اپنی ساتھی سید رضا جعفری اور عابد رضا کو دیتا تھا جو ٹارگٹ کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا کرتے تھے۔‘

بیان میں ملزم کے حوالے سے مزید بتایا گیا کہ ’وہ دشمن انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے. ملنے والا اسلحہ و گولہ بارود اپنے گھر میں رکھا کرتا تھا اور ضرورت پڑنے. پر اور ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کے لیے. ہینڈ گرینیڈ اسلحہ اور امو نیشن فراہم کرتا ہے اور اسلحے کی. خرید و فرخت کا بھی کام کرتا ہے۔‘

پریس ریلیز کے مطابق ملزم نے مزید بتایا کہ ’اس کے ساتھی سید رضا جعفری اور عابد رضا مفتی تقی عثمانی پر حملہ کرنے میں بھی ملوث تھے۔‘

سی ٹی ڈی کا مزید کہنا تھا کہ ملزم کے قبضے سے ایک پستول اور چھ گولیاں بھی برآمد کی گئیں۔ ملزم سے تفتیش جاری ہے اور مزید انکشافات متوقع ہیں۔

مارچ 2019 میں نامعلوم مسلح افراد نے کراچی کے گلشن اقبال ٹاؤن میں نیپا چورنگی کے قریب دارالعلوم کورنگی کے اساتذہ پر حملہ کیا تھا، جس میں دو افراد جان سے گئے. جبکہ مفتی تقی عثمانی حملے میں محفوظ رہے تھے۔

تنظیم زینبیون بریگیڈ کیسے وجود میں آئی؟ 

2000 میں شام میں صدر بننے والے بشار الاسد کے خلاف 2011. میں ہونے والے حکومت مخالف اور بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کے خلاف پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔

شام میں جنگ چھڑنے کے بعد کئی ممالک کی شدت پسند تنظیموں نے وہاں کا رخ کیا۔ امریکی سکیورٹی اور کنسلٹنٹ فرم سوفان گروپ کے مطابق 2016 تک شام میں 81 ممالک کی شدت پسند تنظیمیں موجود تھیں، البتہ پاکستانی شدت پسند تنظیموں کو شام آنے میں کچھ عرصہ لگا۔ 

2013 میں شام کے دارالحکومت دمشق میں بی بی زینب کے روضے اور دیگر مقدس مقامات پر حملے کے بعد روضے کی حفاطت کے لیے دو تنظیمیں بنائی گئی، جن میں پاکستانی شدت پسند تنظیم سپاہ محمد کی زینبیون بریگیڈ میں پاکستانیوں کو لیا گیا. تاکہ وہ شام جا کر لڑائی میں حصہ لے سکیں۔ 

2015 میں زینبیون بریگیڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھرتیوں کے متعلق جاری مہم میں کہا گیا تھا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ بھرتی ہونے والے کو 12 سو امریکی ڈالر ماہوار تنخواہ اور ہر تین ماہ بعد 15 دن کی چھٹیاں ملیں گی۔ ویسے تو بھرتی پاکستان بھر سے کی گئی مگر اکثریت پاڑہ چنار اور سابق فاٹا سے شامل ہوئی۔ جب کہ کچھ بلوچ بھی بھرتے کیے گئے. مگر ان کا ابھی تک پتہ نہیں چلا. کہ ان کا تعلق پاکستانی بلوچستان سے تھا. یا ایرانی بلوچستان سے۔ 

فاطمیون بریگیڈ

اس کے علاوہ شام میں لڑنے کے لیے افغانستان کے رضاکاروں کا فاطمیون بریگیڈ نامی گروپ بنایا گیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے ایران میں موجود 30 لاکھ سے .زائد افغان تارکین وطن کو فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی کیا۔ ایران نے فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے. والے افغانوں کو ایرانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا، جبکہ  پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے رضاکاروں کو 11. سو امیرکی ڈالر ماہانہ تنخواہ دی۔ 

انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی عمر شاہد نے اس سے قبل انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ زینبیون بریگیڈ کے پاکستانی اور فاطمیون بریگیڈ کے افغان رضاکار ایرانی پاسداران انقلاب کے بازو قدس فورس کی معرفت شام میں شدت پسند لڑائی لڑنے گئے۔ 

ان کے مطابق: ’زینبیون بریگیڈ میں پاکستان سے ہرقسم کے. شیعہ بشمول اردو بولنے والے شیعہ، پارہ چنار اور گلگت کے شیعہ بھی گئے۔ شام جا کر لڑائی میں حصہ لینے پاکستان سے کتنے لوگ گئے، اس کی درست تعداد بتانا مشکل ہے، کیوں کہ کچھ لوگ غیر قانونی طریقے سے گئے. تو کچھ لوگ. مذہبی زیارتوں پر گئے. اور وہاں سے ہی شام چلے گئے۔ میرا اندازہ ہے. کہ دو ہزار سے آٹھ ہزار افراد پاکستان سے شام گئے ہیں۔‘ 

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.