بتایا جاتا ہے کہ انسانی جسم میں سؤر کے گُردے کی پیوندکاری کے بعد ایک 62 سالہ شخص تیزی سے صحتیاب ہو رہے ہیں اور انھیں بہت جلد ہسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا۔
امریکی ڈاکٹروں کا کہنا ہے. کہ رک سلیمن اس آپریشن کو کامیاب بنانے والے ایک حقیقی ہیرو ہیں۔
حتمی طور پر کہا جا رہا ہے کہ جانوروں کے اعضا کو مزید پیوند کاری کے لیے. معمولی جنیاتی تبدیلی کے بعد استعمال کیا جا سکے گا۔
میساچوسٹس جنرل ہسپتال
دماغی طور پر مردہ قرار دے دیے جانے والے افراد میں سؤر کے گردے کو تجرباتی بنیادوں پر ڈالا جا چُکا ہے۔
میساچوسٹس جنرل ہسپتال نے ایک بیان میں کہا کہ 16 مارچ کو کی جانے والی چار گھنٹے کی سرجری مریضوں کو آسانی سے دستیاب اعضاء فراہم کرنے کی تلاش میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
اس سے قبل سات سال تک ڈائیلاسز پر رہنے. کے بعد 2018 میں اسی ہسپتال میں ان کے گردے کی پیوند کاری کی گئی تھی. کیونکہ ان کے اپنے گردے ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تھے۔
پانچ سال بعد، پیوند کاری ناکام ہو گئی. اور انھیں مئی 2023 میں ڈائیلاسس پر واپس جانا پڑا۔
ان کے ڈاکٹروں نے وضاحت کی کہ انھیں بار بار ڈائیلاسز کی وجہ سے پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے انھیں ہر دو ہفتوں میں خون کے جمنے کے سلسلے کو روکنے اور کُچھ دیگر مسائل پر قابو پانے کی غرض سے ہسپتال کا چکر لگانا پڑتا تھا جس کی وجہ سے اُن کی معمول کی زندگی متاثر ہوئی۔
سلیمن کا کہنا تھا کہ انھوں نے گردے کی پیوند کاری کے فوائد اور نقصانات کا بھی سوچا تو تھا. مگر نے اسے نہ صرف اپنے لیے فائدہ مند سمجھا بلکہ ان ہزاروں لوگوں کے لیے. امید کی ایک کرن بھی بنے کہ جنھیں زندہ رہنے کے لیے گُردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے. مگر کوئی ڈونر نہیں مل رہا ہوتا۔
انسانی عطیہ
انسانی عطیہ دہندگان کے اعضاء کی ان لوگوں کے لیے. دائمی کمی ہے. جنھیں ان کی ضرورت ہے۔ تاہم جانور عطیہ کے اس معاملے میں انسانوں کی مدد کر سکتے ہیں۔
سؤر کا یہ گردہ خوصی طور میساچوسٹس کے کیمبرج کے ای جینیسس نامی ادارے کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا۔ سؤر سے حاصل کیے جانے والے اس گُردے میں سے ایسے جینیاتی عناصر کو نکالا گیا کہ جو انسانی جسم کے لیے نقصان کا باعث بن سکتے تھے اور اُن کی جگہ اُنھیں شامل کیا گیا جن کی وجہ سے اسے کارآمد بنا کر انسانی جان بچانے میں مدد مل سکے۔
سلیمین اب بھی اینٹی ریجیکشن ادویات لے رہے ہیں. اور یہ واضح نہیں ہے. کہ ان کا نیا گردہ کب تک کام کرے گا۔
پیوند کاری کرنے والی ٹیم میں شامل ڈاکٹر تتسو کاوائی نے کہا کہ ’ہمیں اُمید ہے. کہ پیوند کاری کا یہ طریقہ کار دنیا بھر میں ان لاکھوں مریضوں کو ایک نئی زندگی دے سکتا ہے. کہ جو گردے فیل ہونے کی کوجہ سے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔‘