برطانیہ میں سٹوڈنٹ ویزا پر خاندان کو ساتھ لانے پر پابندی، کیا بیرون ملک جانے کا ایک اور دروازہ بند ہو گیا؟

برطانوی حکومت نے ملک میں آنے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزوں کے حوالے سے پہلے سے اعلان شدہ سخت اقدامات اب نافد کر دیے ہیں۔ یکم جنوری 2024 سے حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کا مطلب ہے. کہ اکثر بین الاقوامی طالب علم اپنے اہلخانہ کو برطانیہ نہیں لا سکیں گے۔

حکومت کا کہنا ہے. کہ طلبہ کے ویزوں کے حوالے سے یہ پابندیاں حکومت کی جانب سے ملک میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی کرنے. اور امیگریشن سسٹم کے غلط استعمال کو روکنے کے سلسلے میں لاگو کی گئی ہیں۔

برطانیہ کے ہوم آفس کے مطابق اس ماہ سے کورسز شروع کرنے والے بین. الاقوامی طلبہ خاندان کے افراد کو لانے کے اہل نہیں ہوں گے تاہم یہ پابندی پوسٹ گریجویٹ ریسرچ کورسز. اور سرکاری فنڈز سے چلنے والے سکالرشپس پر عائد نہیں ہو گی۔

گذشتہ سال مئی میں پہلی بار اعلان کردہ ان تبدیلیوں میں لوگوں پر برطانیہ میں کام کرنے کے لیے ’بیک ڈور روٹ‘ کے طور پر سٹوڈنٹ ویزا استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی. جو اب نافذ العمل ہے۔

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے ایکس (سابقہ ٹوئٹر). پر پیغام پر کئی لوگوں کے خیال میں یہ تارکینِ وطن کی تعداد کو کنٹرول کرے گا تو کئی اس بات پر ناراض ہیں کہ حکومت نہ صرف غیر ملکی طلبہ کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا رہی ہے بلکہ ان غیر ملکی طلبہ کی وجہ سے ملکی یونیورسٹیز کو حاصل ہونے والی آمدن کو بھی ختم کر رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے اسے ’طلبہ کے لیے نئے سال کے آغاز پر. بُری خبر‘ قرار دیتے ہوئے حکومت کو تنبیہ کی کہ اس اقدام سے مستقبل میں طلبہ دوسرے ممالک کی یونیورسٹیز کو ترجیح دینے لگیں گے۔

علامتی تصویر

اس پابندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

2 جنوری کو جاری کیے گئے ایک بیان میں برطانوی حکومت کا کہنا ہے. کہ غیر ملکی افراد برطانیہ میں امیگریشن کے حصول کے لیے سٹوڈنٹ ویزا کو استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں غیر ملکی تارکینِ وطن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ’نئی پابندیاں در اصل اسی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ہیں۔‘

برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات کے تخمینے کے مطابق جون 2022 سے جون 2023 تک 672،000 افراد نے برطانیہ میں نقل مکانی تھی۔ ستمبر 2023 کو ختم ہونے والے سال میں طلبا کے ڈیپینڈنٹس یعنی خاندان کے افراد کو 152,980 ویزے جاری کیے گئے جو ستمبر 2019 کو ختم ہونے والے سال کے 14،839 کے مقابلے میں 930 فیصد زیادہ ہیں۔

برطانوی حکومت کا کہنا ہے. کہ طالب علموں کے زیرِ کفالت افراد سے متعلق قوانین میں تبدیلیاں نافذ العمل اقدامات کے ایک وسیع پیکیج کا حصہ ہیں. جس سے برطانیہ آنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد کو. ایک پائیدار سطح پر لایا جائے گا اور برطانیہ کے امیگریشن نظام کی. لچک سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔

برطانیہ کے وزیر داخلہ جیمز کیورلی کا کہنا ہے. کہ حکومت برطانوی عوام سے امیگریشن میں کمی لانے کے اپنے وعدے کو پورا کر رہی ہے۔

سرحدوں کو کنٹرول

’ہم نے تعداد میں تیزی سے کمی لانے، اپنی سرحدوں کو کنٹرول کرنے اور لوگوں کو ہمارے امیگریشن سسٹم میں ہیرا پھیری کرنے سے روکنے کے لیے. ایک سخت منصوبہ تیار کیا ہے، جو اس سال کے دوران نافذ العمل ہو گا۔‘

برطانیہ میں قانونی امیگریشن اور سرحد کے وزیر ٹام پرسگلوو نے کہا کہ ’ہماری قابلِ ذکر یونیورسٹیوں کو حق ہے کہ دنیا بھر سے ذہین ترین طالب علموں کو برطانیہ کی طرف راغب کریں. لیکن ہم نے طالب علموں کی طرف سے لائے جانے والے زیر کفالت افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا، جو امیگریشن کی سطح کو بڑھا رہا ہے۔ ہم امیگریشن میں فیصلہ کمی دیکھنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں۔‘

برطانوی حکومت کا کہنا ہے. کہ حکومت یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر ایک متبادل نقطہ نظر وضع کرے گی. تاکہ ذہین ترین اور بہترین افراد کو برطانیہ کی طرف راغب کرنا جاری رکھا جا سکے اور وہ اپنے زیر کفالت افراد کو لا سکیں، جبکہ امیگریشن کو کم کیا جا سکے۔

علامتی تصویر
،تصویر کا کیپشنبرطانوی حکومت کا کہنا ہے. کہ غیر ملکی افراد برطانیہ میں امیگریشن کے حصول کے لیے سٹوڈنٹ ویزا استعمال کر رہے ہیں

’برطانیہ سے کسی دوسرے ملک میں سیٹل ہونا آسان ہے‘

کشف حال ہی میں اپنی تعلیم کے لیے سٹوڈنٹ برطانیہ شفٹ ہوئی ہیں۔ وہ ایم سی سی کر رہی ہیں اور ان طلبہ میں سے ہیں جو حال ہی میں اپنے خاندان کے ہمراہ وہاں گئیں۔

کشف کے لیے اپنے شوہر اور سات ماہ کے بیٹے کو ساتھ لے کر جانا ضرورت بھی تھی. اور مجبوری بھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’اتنے چھوٹے بچے کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی اور ویسے بھی میرا ارادہ خاندان کے ساتھ ہی جانے کا تھا۔‘

کشف کا کہنا تھا کہ فی الحال تو وہ تعلیم مکمل کریں گی تاہم مستقبل. میں ان کا ارادہ برطانیہ یا کسی یورپی ملک یا کینیڈا میں مواقع تلاش کرنے کا ہے۔

’یہاں رہنے کا یہ فائدہ ہے کہ یہاں سے کسی دوسرے ملک میں سیٹل ہونا آسان ہے۔ وہ مشکلات جو ویزا اپائنٹمنٹ کے لیے پاکستان میں ہوتی ہیں یا پھر ہم بیرونِ ملک سفر کے حوالے سے پاکستان میں درپیش پابندیوں سے بچ جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ محض سٹوڈنٹ ویزا پر خاندان یعنی شوہر اور بچے یا بیوی بچوں کو لانا آسان ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’اس کے لیے. یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنا مکمل بینک سٹیٹمنٹ دیں. اور انھیں یہ ثابت کریں کے تعلیمی سال یا کورس کے دورانیے میں آپ اپنے. اور اپنے خاندان کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں۔ سفارت خانہ اس صورت میں ویزا جاری کرتا ہے. جب اسے یقین ہو کہ آپ اپنے اخراجات کے لیے. برطانوی حکومت پر انحصار نہیں کریں گے۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.