پاکستان آئی ایم ایف مذاکرات: پاکستان میں سالانہ سینکڑوں ارب روپے کی سبسڈی دینے کا نظام کیا صحیح ہے؟

پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے دوحہ (قطر) میں مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے جس کا مقصد پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے اگلی ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ جولائی 2019 میں ہونے والے قرض پروگرام کے تحت پاکستان اب تک تین ارب ڈالر وصول کر چکا ہے تاہم سابقہ حکومت کے آخری ہفتوں میں اس پروگرام پر پیش رفت اس وقت تھم گئی تھی جب پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کی ایندھن اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کی شرط کو نہیں مانا گیا تھا۔

سابقہ حکومت کی جانب سے فروری کے مہینے کے آخری روز پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں کو نئے مالی سال کے بجٹ تک منجمد کر دیا گیا تھا۔

مقامی صارفین کو تیل مصنوعات کی عالمی مارکیٹ میں بڑھتی قیمتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت نے سبسڈی دینا شروع کر دی تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے اس سبسڈی کے خاتمے کو پاکستان کے لیے قرض کی اگلی قسط جاری کرنے سے مشروط کر دیا گیا۔

سابقہ حکومت کی رخصتی کے بعد وجود میں آنے والی نئی مخلوط حکومت تیل منصوعات پر تین نظرثانی جائزوں میں اب تک قیمت کو بڑھا نہیں پائی جس کی وجہ ممکنہ عوامی ردِعمل سے بچنا قرار دیا جا رہا ہے۔

تاہم پاکستان میں صرف پیٹرول و ڈیزل پر بھی حکومت کی جانب سے سبسڈی فراہم نہیں کی جاتی بلکہ موجودہ سال کے وفاقی بجٹ میں سبسڈی کا ایک پورا الگ سے باب ہے جس میں موجودہ مالی سال میں 682 ارب روپے کی سبسڈی مختلف شعبوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔

پاکستان میں سبسڈی خوراک، تیل، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، فرٹیلائزر سے لے کر تعمیرات کے شعبے میں دی جاتی ہے۔

پاکستان، گندم، آٹا
،تصویر کا کیپشنحکومت نے پاسکو کو گندم کی خریداری کے لیے سات ارب کی رقم مختص کی جس کے تحت پاسکو مارکیٹ سے گندم خرید کر اسے کم نرخوں پر فلور ملوں کو فراہم کرتا ہے

پاکستان میں معیشت کے ماہرین حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی پر مختلف آرا رکھتے ہیں۔ ملک کے سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا اور ماہر معیشت اور وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان اس سلسلے میں متضاد رائے رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر پاشا ملک کی خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے سبسڈی کے خاتمے کے حامی ہیں تو ڈاکٹر اشفاق حسن کے خیال میں ریاست کا فرض ہے کہ وہ غریب طبقات کو سبسڈی فراہم کر کے انھیں سہولت فراہم کرے۔

پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر کتنی اور کن شعبوں کو سبسڈی فراہم کی جاتی ہے؟

پاکستان میں حالیہ مہینوں میں تیل مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی جس پر بہت زیادہ شور مچا ہوا ہے اس کے علاوہ بھی سبسڈی فراہم کی جاتی ہے۔

موجودہ مالی سال کے بجٹ میں 682 ارب کی سبسڈی مختلف شعبوں کے لیے مختص کی گئی ہے جو گذشتہ مالی سال میں 209 ارب تھی۔

موجودہ مالی سال کی سبسڈی میں سب سے بڑا حصہ توانائی کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈی ہے جس کی مالیت 596 ارب روپے ہے جو حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے لے کر اس کی تقسیم کار کمپنیوں میں تقسیم کرتی ہے جس کے تحت بجلی کے نرخ بہت زیادہ نہ بڑھنے پائیں۔

اگرچہ بجلی کمپنیوں کی جانب سے ٹیرف بڑھایا جاتا ہے تاہم حکومت اس میں بھی سبسڈی فراہم کر کے اس پر صارفین کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

حکومت نے پاسکو کو گندم کی خریداری کے لیے سات ارب کی رقم مختص کی جس کے تحت پاسکو مارکیٹ سے گندم خرید کر اسے کم نرخوں پر فلور ملوں کو فراہم کرتا ہے تاکہ آٹے کی قیمت نہ بڑھنے پائے۔

حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز پر کھانے پینے کی چیزوں کو کم نرخوں پر دستیابی کے لیے چھ ارب روپے مختص کیے ہیں۔

دوسری سبسڈی میں میٹرو بس کے کرائے کے لیے ایک ارب روپے کی سبسڈی، فرٹیلائزر پلانٹوں کو چھ ارب کی سبسڈی، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے لیے سستے قرضے فراہم کرنے کے لیے 30 ارب کی سبسڈی، انڈسٹری کو ایل این جی سستے داموں فراہم کرنے کے لیے دس ارب روپے اور پی ایس او کے واجبات کی ادائیگی کے لیے دس ارب کی سبسڈی اور کچھ دوسرے شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی شامل ہے۔

روپے
،تصویر کا کیپشنآئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ اور مالیاتی خسارہ کم کرنا شامل ہیں

تیل مصنوعات پر دی جانےوالی سبسڈی

پاکستان میں سبسڈی دینے کا نظام عرصہ دراز سے رائج ہے تاہم گذشتہ حکومت کی جانب سے جب پیٹرول و ڈیزل پر سبسڈی دے کر ان کی قیمتیں کم کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس کے بعد ان دونوں پر دی جانے والی سسبڈی کی مالیت مارچ کے مہینے میں چند ارب سے شروع ہو کر مئی کے مہینے میں سو ارب روپے سے اوپر جا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ابھی تک تیل مصنوعات پر دی جانے والی سسبڈی ہے جس کی وجہ سے گذشتہ حکومت کے دور میں قرض پروگرام تعطل کا شکار ہوا تو موجودہ حکومت بھی ابھی تک اس سبسڈی کو برقرار رکھے ہوئے ہے تاہم اس کی ادائیگی حکومت کے خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب ملک میں ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے ہائی سپیڈ ڈیزل کے ایک لیٹر پر اس وقت 86.71 روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے اور ایک لیٹر پٹرول پر حکومت کو سبسڈی کی مد میں 47.02 روپے ادا کرنے پڑے رہے ہیں۔

ڈیزل و پیٹرول کی قیمت پر دی جانے والی سبسڈی اس وقت بلند ترین سطح پر موجود ہے جو یکم مئی سے پندرہ مئی کے درمیان بالترتیب 73.04 روپے اور 29.60 روپے تھی۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق حکومت نے پیٹرول و ڈیزل کی منجمد قیمتوں پر فروخت کی وجہ سے مارچ اور اپریل کے مہینے میں تیل کمپنیوں اور ریفائنریوں کو 100 ارب روپے کی سبسڈی ادا کی جبکہ مئی کے مہینے میں اس سبسڈی کا تخمینہ 118 ارب روپے تک لگایا گیا ہے۔

تیل شعبے کے ماہر اور مقامی ریفائنری کے چیف ایگزیکٹو زاہد میر نے کہا کہ تیل مصنوعات کی عالمی قیمتوں کی وجہ سے حکومت کو مقامی سطح پر بھی قیمتوں کو بڑھانا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ فی الحال نئی حکومت کا بھی ڈیزل و پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو مرحلہ وار قیمتیں بڑھانے چاہیں۔ زاہد میر کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومت ہر پندرہ روز میں پیٹرول پر دس روپے اور ڈیزل پر بیس روپے قیمت بڑھا دے تو اس سے سبسڈی بھی مرحلہ وار ختم ہو جائے گی اور مرحلہ وار طریقے سے صارفین کو قیمتیں منتقل ہوں گی۔‘

لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) میں معشیت کے پروفیسر علی حسنین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیٹرول و ڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی کی مالیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر اس کا تقابل پاکستان کے دفاعی بجٹ سے کیا جائے تو اوسطاً دن یا ہفتے میں اس پر اٹھنے والے اخراجات دفاعی بجٹ سے زیادہ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سبسڈی دینے سے مہنگائی کو کنٹرول کیا جاتا ہے تاہم جب یہ سبسڈی ہر ایک کے لیے یکساں ہو تو مراعات یافتہ طبقات اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کیونکہ یہ ٹارگٹڈ سبسڈی نہیں ہوتی اس لیے غریب سے زیادہ یہ امیر کو فائدہ پہنچا رہی ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اس لحاظ سے سبسڈی دی جاتی رہی تو اس پر اٹھنے والے اخراجات بھی بڑھتے رہیں گے۔‘

آئی ایم ایف
،تصویر کا کیپشنپاکستان مسلم لیگ نواز کی ماضی کی حکومت کا آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے کا ریکارڈ دوسری حکومتوں کے مقابلے میں اچھا ہے

کیا سبسڈی دینے کا نظام صحیح ہے؟

پاکستان میں سالانہ سینکڑوں ارب روپے کی سبسڈی دینے کے سلسلے میں ملک کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ کسی ملک کو سبسڈی دینے کا کام اس وقت کرنا چاہیے جب اس کے پاس اتنے مالی وسائل ہوں کہ وہ سبسڈی دے پائے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کا اس مالی سال کے بجٹ خسارے کا تخمینہ 3400 ارب لگایا گیا تھا اور اب یہ خسارہ پانچ ہزار ارب تک مالی سال کے اختتام تک چلا جائے گا۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’تیل کے شعبے میں دی جانے والی سبسڈی قابل عمل نہیں کیونکہ پاکستان پہلے ہی بجلی کے شعبے میں چھ سو ارب کی سبسڈی دے رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جس طرح پیٹرول و ڈیزل پر سبسڈی دی جا رہی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر اگلے مالی سال میں عالمی قیمتیں اسی سطح پر رہتی ہیں تو ملک کو 1200 ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر حکومت نوٹ چھاپ کر یہ سبسڈی دے بھی دے تو اس سے افراط زر بہت اوپر چلا جائے گا اس لیے بہتر ہے سبسڈی ہٹا دے۔ اس وقت صرف تیل مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی لیکن نوٹ چھاپنے سے افراط زر مہنگائی کی شرح کو بہت اوپر کی سطح پر لے جائے گا۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن نے سبسڈی دینے کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ریاست اور حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے غریب طبقات کو بیرونی طور پر ابھرنے والے معاشی جھٹکوں سے بچائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے لیے سبسڈی دینا کوئی نئی چیز نہیں اور ماضی میں بھی سبسڈی دی جاتی رہی اور دوسرے ممالک میں بھی سبسڈی دی جاتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں پنشن بینیفٹ سکیم اور بے روزگاری الاؤنس تو دیا نہیں جاتا حکومت کے پاس سبسڈی دینے کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ کم آمدنی والے طبقات کو مالی طور پر سہارا دے سکے۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ ’یہ بات صحیح نہیں ہے کہ سابق حکومت نے تیل و پیٹرول پر سبسڈی دینے کے لیے فنانسنگ کا انتظام نہیں کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سابقہ حکومت نے پیٹرول و ڈیزل پر سبسڈی دینے کے لیے 460 ارب فنانسنگ کا انتظام کر رکھا تھا۔‘

ڈاکٹر اشفاق کے بقول ’ملک کے بجٹ خسارے کی بنیاد پر یہ کہنا کہ سبسڈی نہیں دینی چاہیے صحیح نہیں ہے۔‘

ان کے خیال میں ’پاکستان کا خسارہ ہر سال ہی ہوتا ہے اور دو عشروں سے یہی ہو رہا ہے۔ تاہم غریب طبقات کو مہنگائی اور مالی مدد دینے کے لیے حکومتوں کو اپنے وسائل اور آمدنی میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ خسارہ بھی نہ بڑھے اور کمزور طبقات بھی بیرونی طور پر بڑھتی مہنگائی سے محفوظ رہ سکیں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.