ايرانی پاسداران انقلاب کی ملی بھگت سے ايران کی تاريخ کا سب سے بڑا مالياتی فراڈ

اصفہان کے علاقے میں سٹیل اور لوہے کے کارخانے

پاسداران انقلاب 3 ارب ڈالر کی خطير رقم کو بيرون ممالک ميں دہشتگردوں کی مالی مدد کے ليۓ استعمال کررہی ہے

ایران میں اصفہان کے مبارکہ علاقے ۔میں سٹیل اور لوہے کے سب سے بڑے کارخانے میں بدعنوانی کے ایک میگا اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے۔ اس اسکینڈل میں بدعوانی کا حجم تین ارب ڈالر بتایا گیا ہے۔ جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ایرانی پارلیمنٹ کی ریسرچ اینڈ انویسٹی گیشن کمیٹی کی جانب سے عدلیہ کو 300 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے۔ کہ اس کارخانے میں 92,000۔ ارب تومان کی رقم کی خورد برد کا پتا چلا ہے۔ امریکی کرنسی میں یہ رقم تقریباً 3 بلین ڈالر کے برابر ہے۔

پاسداران انقلاب کے اعلیٰ حکام ملوث

اُنہوں نے سابق ایرانی صدر حسن روحانی کی حکومت میں اعلیٰ عہدیداروں کی برطرفیوں اور تقرریوں میں مداخلت اور ملک میں تسلیم شدہ سابق عہدیداروں کو ٹھیکے۔ دینے میں ملوث ہونے کا بھی حوالہ دیا۔

رپورٹ میں اصفہان کے سابق گورنر عباس رضائی۔ روحانی کے پہلے نائب اسحاق جہانگیری، سابق صدر کے دفتر کے سربراہ محمود واعظی اور ایوان صدر کے سربراہ محمد نہاوندیان جیسے لوگوں کے۔ ناموں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اقربا پروری اور حکومتی کرپشن

مبارکہ اسٹیل کمپنی جو ایران کی جی ڈی پی میں 1فی صد حصہ رکھتی ہے اور نجکاری کے باوجود ہمیشہ حکومتی کنٹرول میں رہی ہے۔ یہ کمپنی اقربا پروری اور بدعنوانی کا ذریعہ رہی ہے۔

رپورٹ میں ان رقوم کی فہرست دی گئی ہے۔ جو غیر قانونی طور پر سرکاری اداروں کے اکاؤنٹس میں جمع کی گئی تھیں کیونکہ 1.5۔ ارب تومان ضلعی پولیس فورس کو ادا کیے گئے تھے۔ 6 ارب تومان سپاہ پاسداران انقلاب کے صاحب الزمان کور کے اکاؤنٹ میں ادا کیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں پاسیج اڈے۔ وزارت دفاع اور مسلح افواج کو خطیر رقم دینے کے ساتھ مساجد کے آئمہ کے دفاتر کو 1.5 بلین تومان ادا کیے گئے۔ تقریباً ایک ارب تومان مذہبی اسٹیٹ اور الغدیر انٹرنیشنل فاؤنڈیشن اور صوبے میں محکمہ انصاف کی انتظامیہ کی عمارت کو 300 ملین تومان مختص کیے گئے تھے۔

پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق کمپنی کا انتظام حقیقی شیئر ہولڈرز کے بجائے سابق صدر کے دفتر سے کیا جاتا تھا۔ کمپنی کی زرمبادلہ کی سرگرمیاں کچھ۔ مخصوص افراد کے ذریعے چلائی جاتی تھیں۔ جن کا تعلق سی ای او اور سابق ڈپٹی چیف فنانشل آفیسر سے تھا۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.