بڑھتی عمر میں آئی وی ایف کے ذریعے بچہ پیدا کرنے پر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

یوگینڈا کے دارالحکومت کمپالا میں 29 نومبر کو آئی وی ایف ٹیکنالوجی کی مدد سے جڑواں بچوں کو جنم دینے کے بعد 70 سالہ سفینہ نموکوایا کے منہ سے پہلا جملہ یہ نکلا ’یہ ایک معجزہ ہے۔‘

سفینہ اس افریقی ملک میں بچے کو جنم دینے والی معمر ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔

انھوں نے ’وومین ہاسپٹل انٹرنیشنل اینڈ فرٹیلیٹی سینٹر‘. (WHI&FC) میں سیزیرین آپریشن کے ذریعے ایک لڑکی اور ایک لڑکے کو جنم دیا۔

اس ہسپتال میں فرٹیلیٹی (بچے پیدا کرنے کی صلاحیت) سے متعلق ڈاکٹر ایڈورڈ تمل سالی نے بی بی سی کو بتایا کہ سفینہ نے ان بچوں کو ڈونر کے انڈے اور اپنے شوہر کے سپرم کی مدد سے جنم دیا ہے۔

سفینہ نموکوایا نے تین سال پہلے 2020 میں اسی طرح کے عمل سے گزر کر ایک بچی کو جنم دیا تھا۔ اتنی بڑی عمر میں ماں بننے کی وجہ صرف یہ تھی. کہ وہ بے اولاد ہونے کے طعنوں سے پریشان تھیں۔

سفینہ کی طرح گجرات کی رہنے والی گیتا بین (فرضی نام). کو بھی اولاد نہ ہونے پر معاشرے کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑا۔

بالآخرانھوں نے آئی وی ایف کا سہارا لیا اور 2016 میں ایک بچے کی ماں بن گئیں۔

بچے نہ ہونے کے دُکھ کو ختم کرنے والی ٹیکنالوجی

بچہ کی پیدائش
،تصویر کا کیپشنآئی وی ایف ایک ایسا طریقہ ہے جس میں عورت کے ایگز کو مرد کے سپرم سے لیبارٹری میں فرٹیلائزکر کے جنین کو بچہ دانی میں ڈالا جاتا ہے

گیتا بین نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شادی کے 25 سال بعد ماں بنیں. جس وقت ان کی عمر تقریباً 42 سال تھی۔

اب وہ اور اس کے شوہر منوج کمار .(فرضی نام). اپنے سات سالہ بیٹے کے ساتھ بہت خوش ہیں۔

منوج کمار بتاتے ہیں کہ شادی کے اتنے سال گزرنے کے باوجود بچہ نہ ہونے پر لوگ انھیں بار بار ڈانٹتے تھے۔ اس سے پریشان ہو کر انھوں نے جاننے والوں اور رشتہ داروں سے بات کرنا چھوڑ دی یہاں تک کے قریبی شادیوں میں جانا تک چھوڑ دیا۔

یاد رہے کہ آئی وی ایف ایک ایسا طریقہ کار ہے. جس کے دوران عورت کے ایگز (انڈوں) کو مرد کے سپرم سے لیبارٹری میں فرٹیلائز کیا جاتا ہے. اور اس کے بعد جنین کو عورت کے رحم (بچہ دانی) میں ڈالا جاتا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.