’لڑکوں نے کہا کِچن کا کام سیکھو، تم بے حیائی پھیلا رہی ہو‘

سبقت ملک

’جاپانی مارشل آرٹ کے کھیل جُو جِتسُو کو ہمارے گاوں میں کُشتی کہتے ہیں اور سب لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف مرد کھیل سکتے ہیں۔ لیکن میں نے اس کھیل میں نام کمانے کے لیے کئی سال تک لوگوں کے طعنے سُنے، لڑکوں کی گالیاں کھائیں اور چوری چُھپے انڈر گراوٴنڈ پریکٹس کی۔‘

منگولیا میں اگلے ماہ ہو رہے جُو جِتسُو کے عالمی مقابلوں کے لیے انڈیا کی نمائندگی کے لیے منتخب ہونے والی 20 سالہ سبقت ملک جنون کی حد تک اس کھیل میں مگن ہیں اور جموں کشمیر کے لیے سونے کا تمغہ بھی جیت چکی ہیں۔ لیکن یہ سفر ان کے لیے آسان نہ تھا۔

چھٹی جماعت میں ٹی وی پر جُو جِتسُو کے مقابلے دیکھ کر سبقت نے ٹھان لی کہ وہ مارشل آرٹس کی اسی قسم میں اپنا لوہا منوائیں گی۔

تعاون کی کمی

’سکول میں جب میں نے چند لڑکیوں کے ساتھ گراونڈ میں پریکٹس شروع کی تو سکول انتظامیہ نے منع کردیا اور کہا اس سے سکول کا ماحول بگڑ جائے گا۔ میں نے گاؤں کے میدان میں پریکٹس کی تو وہاں لوگ طعنے کستے اور لڑکے گالیاں دیتے تھے، دھمکیاں دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے تم لڑکی ہو، کچن کا کام سیکھو، یہ بے شرم کھیل مت کھیلو، تم بے حیائی پھیلا رہی ہو۔‘

پورے سماج کی طرف سے مخالفت کے باوجود سبقت نے ہار نہیں مانی۔ اُن کے والدین نے اُن کا ساتھ دیا اور اُن کے کوچ مظفر احمد نے اُن کی بہت مدد کی۔

’جب ہر جگہ سے مجھے بھگایا گیا اور کہیں پریکٹس کرنے کی اجازت نہ ملی تو میرے کوچ میرے ساتھ ڈی سی آفس گئے۔ ڈی سی صاحب نے پھر سکول انتظامیہ کو حکم دیا کہ مجھے پریکٹس کی اجازت دی جائے ، لیکن پھر بھی سکول کے گراؤنڈ میں نہیں بلکہ ایک اندھیرے کمرے میں پریکٹس کی اجازت ملی۔ میں حیران تھی کہ میرے کھیلنے سے کیا بے شرمی پھیلے گی، شاید میرا لڑکی ہونا بڑا مسئلہ تھا۔‘

سبقت

سبقت جن دنوں چوری چھُپے پریکٹس کرتی تھیں۔ اُن دنوں کا حال سناتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔ ’میں بارہویں جماعت میں تھی۔ امتحانات بھی قریب تھے۔ لیکن لوگ ایک تو مجھے گالیاں دیتے اور میرے والدین کے پاس جاکر کہتے کہ لڑکی ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ اس سب سے مجھے ڈپریشن ہوگیا۔ مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا اور کئی ماہ تک ڈپریشن کی دوائی کھاتی رہی۔‘

کوچ کی مدد

سبقت اپنے کوچ مظفر احمد کے علاوہ جموں کشمیر جُو جِتسُو ایسوسی ایشن کے صدر ترسیم شرما کو سراہتی ہیں۔ کہ انھوں نے تمام رکاوٹوں کے باوجود اُن کی حوصلہ افزائی کی یہاں تک کہ وہ عالمی مقابلوں کے لیے منتخب ہونے والی جموں کشمیر کی واحد جُو جِتسُو کھلاڑی بن گئیں۔

جُو جِتسُو جوڈو یا کراٹے سے بہت مختلف اور خطرناک کھیل ہے۔ اس میں دو کھلاڑی ایک دوسرے پر مُکّوں اور لاتوں سے حملہ کرتے ہیں۔

’پوری دُنیا میں لڑکیاں یہ کھیل کھیلتی ہیں۔ میں بھی دو بار زخمی ہوئی ہوں۔ لیکن مجھے اولمپکس تک پہنچنا ہے۔ یہ میرا جنون ہے۔ آج بھی میں گاؤں میں چلتی ہوں۔ تو لوگ تِرچھی نظروں سے دیکھتے ہیں اور کاناپھوسی کرتے ہیں۔ لیکن میں جانتی ہوں میں کیا کررہی ہوں اور میرے والدین اس سفر میں میرے ساتھ ہیں۔‘

سبقت
،کوچ مظفر احمد نے اُن کی بہت مدد کی

حالانکہ مقامی حکومت کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے اربوں روپے کے فنڈس کا اعلان کرتی ہے لیکن سبقت جیسے کھلاڑیوں کو حکومت کی طرف سے مناسب مدد نہیں ملتی۔

’اس کھیل کے لیے مخصوص وردی ہوتی ہے، گلوز اور گارڈز ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں کھلاڑی کو سب کچھ اپنی جیب سے خریدنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ سفر کا خرچہ اور ٹورنامنٹ کی فیس تک خود دینی پڑتی ہے۔‘

سبقت کے والد ایک یومیہ مزدور ہیں، لیکن انھوں نے اُن کی بہت مدد کی ہے۔

’اگلے ماہ منگولیا جانا ہے تو اس میں ڈیڑھ سے دو لاکھ کا خرچہ ہوگا۔ کوئی ادارہ دس یا بیس ہزار روپے دے کر ڈھنڈورہ پیٹتا ہے۔ لیکن کھلاڑی کو سپانسر نہیں کیا جاتا۔ میرے والد کہتے ہیں۔ کہ تھوڑی سی زمین ہے وہ بھی بیچ دیں گے کیونکہ وہ میرے شوق اور جنون کی بہت قدر کرتے ہیں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.