جینسن ہوانگ: جو ٹیکنالوجی کمپنی اینویڈیا کے سربراہ بننے سے پہلے بیت الخلا اور برتن دھوتے رہے

اینویڈیا (Nvidia) کمپنی جینسن ہوانگ نے 1993 میں قائم کی تھی۔ چونکہ کمپنی نے کمپیوٹرز کے لیے گرافکس کارڈز بنانے شروع کیے تھے اس لیے اس کمپنی کے نام میں تین عناصر کو ملایا گیا ہے۔ NV، نیکسٹ وژن یعنی مستقبل کا خواب، VID، ویڈیو کا حوالہ ہے: جبکہ یہ لفظ ’انویڈیا (invidia) سے لیا گیا جو لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب مقابلہ کرنا ہے۔

اور گذشتہ سال کے دوران اس ٹیکنالوجی کمپنی کے حیرت انگیز نتائج کو دیکھتے ہوئے امکان یہی ہے کہ واقعی یہ وہ احساس ہے جو کمپنی اور اس کے بانی دونوں اپنے حریفوں میں بیدار کرتے ہوں گے۔

مارچ 2023 اور مارچ 2024 کے درمیان اینویڈیا کے حصص کی قیمت 264 امریکی ڈالر سے 886 امریکی ڈالر تک بڑھ گئی، جس سے اس کی کل قیمت دو کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ ہوگئی ہے۔

اور یہ الفابیٹ (گوگل)، ایمازون اور میٹا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے. دنیا کی تیسری سب سے بڑی عوامی کمپنی بن گئی ہے۔ اب صرف مائیکروسافٹ اور ایپل فہرست میں اس سے آگے ہیں۔

مصنوعی ذہانت

اینویڈیا کی قدر میں تیزی سے اضافے کی وضاحت مصنوعی ذہانت اور اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ یہ 70 فیصد سے زیادہ چپس فراہم کرنے والی کمپنی ہے. جو اس ٹیکنالوجی کو ممکن بناتی ہے۔

لیکن اگراس کے بانی جینسن ہوانگ کا وژن نہ ہوتا تو یہ ٹیکلنالوجی سرے سے ہی نہ ہوتی۔ انھوں نے اُس وقت اس مارکیٹ کا انتخاب کیا جب اس کا وجود بھی نہیں تھا. اور اسے حقیقت میں بدلنے میں انھوں نے اپنا حصہ ڈالا۔

جیسا کہ وائرڈ میگزین نے حال ہی میں لکھا، آج ہوانگ کو ’گھنٹہ، سال اور شاید دہائی کا آدمی‘ سمجھا جاتا ہے۔

جبکہ امریکی نیٹ ورک سی این بی سی کے جینسن سرمایہ کاری کے تجزیہ کار جم کرمر نے کہا ہے. کہ اینویڈیا کے بانی نے ایلون مسک کو مستقبل کی بصیرت کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

ہوانگ کی کہانی مشکلات، خطرات اور سخت محنت سے خالی نہیں رہی۔ اس کہانی میں بیت الخلا دھونے اور ویٹر کے طور پر کئی کھنٹوں تک مشقت کرنا بھی شامل ہے۔

جیسنسن ہواننگ

ریفارمیٹری میں ایک تارک وطن بچہ

وہ سنہ 1963 میں تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں پیدا ہوئے۔ ہوانگ نے اپنے بچپن کا کچھ حصہ تائیوان اور تھائی لینڈ میں گزارا پھر ایک وقت آیا جب ان کے والدین نے انھیں اور ان کے بھائی کو امریکہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

ان دونوں بھائیوں کو انگریزی نہیں آتی تھی وہ اپنے. ماموؤں کے ساتھ رہنے لگے، وہ بھی حال ہی میں اس ملک میں آئے تھے۔ انھیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے. ریاست کینٹکی. کہ اونیڈا بیپٹسٹ انسٹیٹیوٹ میں پڑھنے کے لیے. بھیجا گیا یہ جگہ سکول سے زیادہ ایک اصلاحی مرکز سے ملتی جلتی تھی۔

سنہ 2016 میں اس سکول کی طرف سے شائع ہونے والے ایک نیوز لیٹر کے مطابق جب وہ اونیڈا ایلیمنٹری سکول میں پڑھتے تھے تو اس وقت دونوں بھائیوں کو اس ادارے میں رہنے، کھانے اور کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

کم عمر جینسن کا کام بیت الخلاء کو دھونا تھا۔

انھوں نے 2012 میں این پی آر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ’بچے واقعی بہت سخت تھے۔ ان سب کے پاس جیب میں چاقو تھے. اور جب لڑائی ہوتی تھی تو منظر اچھا نہیں ہوتا تھا۔ بچے زخمی ہوتے تھے۔‘

مشکلات کے باوجود ہوانگ کا ہمیشہ سے یہ مؤقف برقرار رہا ہے کہ یہ ایک بہترین تجربہ تھا. اور انھوں نے وہاں اپنے وقت کا لطف اٹھایا۔

2016 میں ہوانگ اور ان کی بیگم لوری نے اس تعلیمی مرکز میں لڑکیوں کی کلاسوں اور ہاسٹل کی عمارت کی تعمیر کے لیے 20 لاکھ ڈالر عطیہ کیے تھے۔

جیسنسن ہوانگ

قسمت کی تلاش

کچھ عرصے بعد جب ان کے والدین امریکہ پہنچے تو یہ دونوں لڑکے ان کے ساتھ رہنے کے لیے ریاست اوریگون چلے گئے۔

ہوانگ نے اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہی جگہ ہے جہاں وہ کمپیوٹر کے ’جادو‘ سے آشنا ہوئے اور جہاں ’قسمت‘ نے انھیں اپنی بیوی لوری سے ملایا. جو ان کی لیب پارٹنر تھیں۔

80 طالبہ کی کلاس میں یہ تین لڑکیوں میں سے ایک تھیں۔

سنہ 2013 میں اس یونیورسٹی میں طالب علموں سے ایک گفتگو میں ہوانگ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح ان کی ملاقات اتفاقاً اینویڈا .کے دو شریک بانیوں کرس میلاچوسکی اور کرٹیز پریم سے ہوئی تھی۔

انھوں نے کہا ’میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کامیابی کے لیے اتفاقاً ہونے والی چیزیں بہت اہم ہے۔‘

اینویڈا کے تینوں شریک بانیوں کو کمپنی بنانے کا خیال سان ہوزے (کیلیفورنیا) میں ڈینی کی فاسٹ فوڈ چین میں ناشتے کے دوران آیا۔

2023 کے بعد پہلی بار اس ٹیکنالوجی کمپنی کو ایک ارب ڈالر والی کمپنیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ اس موقع پر وہاں ایک تختی رکھی گئی تھی. جو اس حقیقت کی یاد دلاتی ہے۔

ڈینی کے ساتھ ہوانگ کا رشتہ پرانا ہے۔ 15 سال کی عمر میں پورٹلینڈ میں اسی چین کی ایک سٹور میں ہوانگ. کو اپنی پہلی نوکری ملی تھی۔ وہ وہاں برتن دھوتے، میز صاف کرتے اور ویٹر کا کام کرتے تھے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.