دنیا میں کیلے کی 20 ہزار اقسام ہیں لیکن ہم صرف ایک ہی کیوں کھاتے ہیں؟

دنيا ميں کيلے کی 20 ہزار اقسام ہيں

اٹلی کے اٹنا آتش فشاں پہاڑ کی ڈھلوان پر اگنے والے مالٹے، وینیزویلا کا نایاب سریولو کوکوا، چین کے لال چاول اور میکسیکو میں اوکاسا کی مکئی۔۔۔ معدومیت کے خطرے کے شکار یہ صرف چند کھانے کی اشیا ہیں۔ جن کے بارے میں بی بی سی صحافی ڈین سالاڈینو کا ماننا ہے۔ کہ یہ صرف خوراک اور کمائی کا ذریعہ ہی نہیں ہیں۔

یہ کسانوں اور کھانا پکانے والوں کی متعدد نسلوں کی صدیوں پر محیط ایجاد، تخیل اور دانش کا نچوڑ ہیں جنھیں ہمارے آبا و اجداد نے ہزاروں سال میں تیار کیا۔ لیکن خوارک کا یہ زرخیز تنوع رفتہ رفتہ وقت کی چکی میں گم ہوتا جا رہا ہے۔

’ایٹنگ ٹو ایکسٹنشن‘ نامی کتاب میں ڈین سالاڈینو اپنے تجربات تحریر کیے ہیں۔ جو انھوں نے دنیا کے مختلف کونوں میں منفرد خوارک اگانے اور پکانے والوں سے مل کر کیے۔ جو اب خطرے کا شکار ہیں۔

سالاڈینو خبردار کرتے ہیں۔ کہ خوراک کی پیداوار کا موجودہ نظام زمین۔ کی تباہی میں حصہ دار ہے۔

ڈین سالاڈینو نے بی بی سی منڈو سے خوراک کے خزانے کو لاحق خطرات اور اس تنوع کو خاتمے سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات پر بات چیت کی ہے۔

یہ دلچسپ گفتگو آپ کو اپنی خوراک کی اگلی پلیٹ کو مکمل طور پر ایک نئی نظر سے دیکھنے میں بھی مدد دے گی۔

آپ نے ایسی خوراک کی کہانیاں کیسے اکٹھی کرنی شروع کیں جو معدومیت کے خطرے کی شکار ہیں؟

سنہ 2007 میں بی بی سی کے ریڈیو پر خوراک کے حوالے سے ایک پروگرام پر کام شروع کیا گیا جو 40 سال سے ثقافت، سائنس اور خوارک کی معیشت پر توجہ دیتا ہے۔

پہلے پروگرام کے لیے میں سسلی گیا اور میری توقع تھی کہ مالٹے کی کٹائی پر جشن کو پیش کروں گا۔ میرا خاندان بھی سسلی سے ہے اور میں جانتا تھا۔ کہ مالٹے کا اس جزیرے کی ثقافت اور شناخت پر گہرا اثر ہے۔

لیکن جب میں نے روایتی مالٹے اگانے والے کسانوں سے بات کی تو انھوں نے بتایا۔ کہ وہ اپنی آخری فصل کاٹ رہے ہیں کیونکہ اب درآمدی مالٹے کی مانگ بڑھ چکی ہے اور چھوٹے کاشت کار کے لیے کام کرنا مشکل ہو چکا ہے۔

کیا اپنی کتاب کا خیال آپ کو اسی دوران آیا؟

سسلی میں لنٹینی نامی قصبے میں مجھے کھانے کی دعوت ملی جہاں ہر پکوان میں وہی روایتی مالٹے استعمال ہوئے تھے اور میری ملاقات شمالی اٹلی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے ہوئی جو ’سلو فوڈ موومنٹ‘ (یعنی سست خوراک) کی تحریک کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ سسلی کے اٹنا آتش فشاں کی ڈھلوان پر اگنے والے ان مالٹوں کا نام معدوم ہوتی خوراک کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔

اس فہرست میں آج 150 ممالک کی ساڑھے پانچ ہزار اشیا ہیں۔ یہیں سے میری دلچسپی اس موضوع میں پیدا ہوئی۔

سوال: اس کتاب میں خوراک کو صرف غذائیت کے ذریعے کے طور پر نہیں بلکہ سالہا سال اور نسل در نسل کی جدت اور مہارت کی ایک کہانی کے طور پر پیش کیا گیا جو مجھے بہت دلچسپ لگا۔ آپ کے لیے یہ کس بات کی نمائندگی کرتی ہیں؟

ڈین سالاڈینو: خوراک دنیا کو سمجھنے کے لیے ایک حیرت انگیز آئینہ ہے۔ اس کتاب میں ان پکوانوں کے آغاز کی کہانی ہے۔ کیسے مشکل زمینی حالات میں خوارک نے مقامی آبادی کو زندہ رکھا اور خوراک سے تعلق نے کیسے ان آبادیوں کی شناخت اور ثقافت پر اثر ڈالا۔

تو میں نے جدت۔ سائنس۔ ثقافت۔ زندہ رہنے کی جستجو کی نظر سے خوراک کو دیکھا۔ کیونکہ یہ ان تمام چیزوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.