زمران سیموئیل: پاکستانی نژاد بیرسٹر جنھیں برطانیہ میں اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا گیا

اعلیٰ ایوارڈ
زمران سیموئیل اعلیٰ ایوارڈ ليتے ہوۓ

’کووڈ لاک ڈاؤن برطانیہ اور دنیا بھر کے لیے مشکل مرحلہ تھا۔ اس دوران برطانیہ میں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تالیاں بجائی جاتی تھیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر میرے پانچ سالہ بیٹے نے کہا کہ ایک دن میرے پاپا کے لیے بھی تالیاں بجیں گی۔‘

’بس یہ وہ موقع تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی اپنا کردار ادا کروں گا۔ مجھے لگا کہ میں وبا کے دوران بھی انسانی حقوق کا دفاع کر سکتا ہوں۔ جس کے لیے میں نے لاک ڈاون کے دوران گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والوں کو مفت قانونی مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا آغاز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ سے ہوا۔‘

یہ کہنا ہے پاکستانی نژاد برطانوی بیرسٹر زمران سیموئیل کا جنھیں برطانیہ میں ’ممبر آف موسٹ ایکسلینٹ آرڈر آف دی برٹش ایمپائر (ایم بی ای)‘ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ انھیں یہ ایوارڈ شہزادہ ولیم نے ایک شاندار تقریب میں دیا۔

بیرسٹر زمران کو یہ ایوارڈ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے پر دیا گیا ہے۔

بیرسٹر زمران کہتے ہیں کہ ’میں کافی خوش قسمت ہوں کہ مجھے اس اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میرے کام کو سراہا گیا اور مجھے اس قابل سمجھا گیا۔‘

فيصل آباد سے برطانيہ تک کا سفر

بیرسٹر زمران سیموئیل پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ اور تین سال کی عمر میں اپنے والدین کے ہمراہ برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔

برطانیہ منتقل ہونے کے باوجود ان کے والدین اور ان کے پاکستان میں اب بھی روابط ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ زندگی کے اس سفر میں ان کے لیے ہمیشہ رول ماڈل ان کے والدین ہی رہے ہیں۔

’میری والدہ، جو پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں، نے مجھے بچپن ہی سے سوال کرنا سکھایا۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.