سنگاپور کا چنگی ایئرپورٹ: دنیا کا بہترین ہوائی اڈہ جو ایک تفریح گاہ بھی ہے

سنگاپور کا چنگی ایئرپورٹ

تقریباً ہر ہفتے عشرے بعد اسکندر ذوالقرنین اپنی اہلیہ اور دو بچوں کو لے کر سنگاپور کے مشہور چنگی ایئر پورٹ کو چل پڑتے ہیں۔ ہر ہفتے ان کی منزل ایک ہی ہوتی ہے، اور وہ ہے ڈیڑھ مربع میل پر پھیلا ہوا ’جیول‘ نامی وہ جدید شاپِنگ سینٹر جو چنگی ایئر پورٹ کے ٹرمینل نمبر ایک سے منسلک ہے۔

یہ خوبصورت عمارت کینیڈا کے معروف ماہرِ تعمیرات موشے سفدی اور ان کی ٹیم کی مہارت کا منہ بولا ثبوت ہے۔

خوبصورت عمارت

اسکندر ذوالقرنین کے بچوں کو اس شاپِنگ مال میں وہ سات منزلوں جتنی اونچی آبشار بہت پسند ہے۔ جو دنیا میں کسی عمارت کے اندر بنائی جانے والی بلند ترین مصنوعی آبشار ہے۔ اس شاپِنگ مال میں ان کی دوسری پسندیدہ چیز موسیقی کی دھن پر روشنیوں کا ناچ ہے۔ جس میں انھیں اپنے من پسند ڈزنی کے ۔کردار بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اس شاپِنگ مال سے گزرنے کے بعد ۔یہ فیملی شٹل بس یا الیکٹرک ٹرین سے ٹرمینل 3 کے پاس اس جگہ اتر جاتی ہے جہاں ہر وقت کارنیوال جیسا میلہ لگا ہوتا ہے۔ جس میں بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کی تفریح کا پورا سامان موجود ہوتا ہے۔

جی ہاں ہم آپ کو اس ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ جسے دنیا کے مختلف ہوائی اڈوں کی درجہ بندی کرنے والی تنظیم ’سکائی ٹریکس‘ نے دنیا کا بہترین ایئر پورٹ قرار دیا ہے۔

سکائی ٹریکس کا دعویٰ ہے کہ اس درجہ بندی کے لیے انھوں نے دنیا بھر کے 550 سے زیادہ ہوائی اڈوں کا جائزہ لیا تھا جس میں مسافروں کو فراہم کی جانے والی سہولیات۔ کو خاص طور پر مدنظر رکھا گیا تھا۔

چنگی ائیر پورٹ سکائی ٹریکس کی درجہ بندی میں 12 مرتبہ اوّل رہا اور پچھلے دس برس میں آٹھ مرتبہ یہ پہلے نمبر پر رہا ہے۔

قطر کا دوحہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ

دو برس کی درجہ بندی میں قطر کا دوحہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور ٹوکیو کا ہانیڈا ایئر پورٹ ایک ایک سال کے لیے پہلے نمبر پر رہے اور چنگی دوسرے نمبر پر، لیکن رواں برس مارچ میں چنگی ایک مرتبہ پھر پہلے نمبر پر آ گیا۔ سکائی ٹریکس کے مطابق آج چنگی ائیر پورٹ پر صارفین کو جو سہولیات اور لطف اندوز کے مواقع مہیا کیے جا رہے ہیں ان کا ’دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔‘

کورونا کی وبا سے پہلے سنہ 2019 میں اس ایئر پورٹ پر اترنے یا پرواز کرنے والی مسافر بردار پروازوں کی کل تعداد تقریباً تین لاکھ 82 ہزار تھی اور ان پر سوار مسافروں کی کل تعداد چھ کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ رہی۔

وبا کے بعد اب جبکہ اکثر ممالک میں سفری پابندیاں ختم ہو چکی ہیں، چنگی ایئر پورٹ پر بھی مسافروں کی تعداد واپس اپنی سطح پر آ رہی ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ائیر پورٹ نہ صرف اس خطے کا ایک بڑا ائیر پورٹ ہے بلکہ یہ ایک ایسا تفریحی مقام بھی ہے جسں سے سنگاپور کے لوگ بہت پیار کرتے ہیں۔

ریچل ٹین کو اپنی کار پر چنگی ایئر پورٹ تک پہنچنے میں صرف پندرہ منٹ لگتے ہیں اور وہ ہر ہفتے سودا سلف خریدنے کے لیے بھی جیول شاپِنگ مال آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ شاپِنگ کی بات تو الگ ہے، لیکن آپ بہت دیر تک جیول میں لگے فوّارے کے سامنے بیٹھ کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔‘

زیرِ زمین ریل

سنگاپور شہر سے آپ با آسانی بس یا زیرِ زمین ریل کے ذریعے چنگی پہنچ سکتے ہیں، اسی لیے لوگ پورا دن گزارنے کے لیے ائیر پورٹ پر آ جاتے ہیں۔ یہاں آپ فلم دیکھ سکتے ہیں، کھانا کھا سکتے ہیں، سودا سلف خرید سکتے ہیں، حتیٰ کہ ایئر پورٹ کے کسی خاموش کونے میں بیٹھ کر امتحان کی تیاری بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ائیر پورٹ اس قدر خوبصورت ہے کہ اب یہاں لوگ اپنی شادی کی تصویریں بنانے اور اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ ’ری یونین‘ منانے بھی آ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں سیاحوں کی دلچسپی کی کئی اور چیزیں بھی موجود ہیں۔ جن میں ایک ایئر کنڈیشنڈ مرطوب جنگل اور بارہ میٹر بلند سلائیڈ بھی شامل ہے۔ اگر آپ اپنی پرواز کے وقت سے پہلے روانگی والے لاؤنج میں پہنچ جاتے ہیں تو فکر کی کوئی بات نہیں، آپ بھاپ سے نہانے اور جسم کی ٹکور کے لیے گرم حمام (سپا) میں بھی جا سکتے ہیں، بلامعاوضہ تھیٹر میں فلم دیکھ سکتے ہیں، تیراکی کے لیے سؤِمنگ پول میں چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ اور اگر اور کچھ نہ کرنا چاہیں تو تتلیوں کے باغ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اور اگر اب بھی پرواز میں وقت باقی ہے۔ تو لاؤنج میں پڑی مساج والی کرسیوں پر دراز ہو سکتے ہیں

چنگی ایئرپورٹ کے قریب جوریسک پارک

یہاں تک کہ اس ایئرپورٹ کی اپنی ایک خوشبو بھی ہے۔ پھولوں اور مختلف مسالحوں کی خوشبووں کی آمیزش سے تیار کردہ اس خصوصی عطر کی بھینی بھینی مہک آپ ائیر پورٹ کی وسیع و عریض عمارت میں ہر جگہ محسوس کر سکتے ہیں۔

نمائش گاہ

اور ٹرمینل 4 سے باہر نکلتے ہی آپ خود کو ایک بہت بڑی نمائش گاہ میں پاتے ہیں۔ جہاں آپ کو بانت بانت کے بڑے بڑے ڈائنوسارز دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نمائش ایک میل تک پھیلی ہوئی ہے۔

سنگاپور وہ ملک ہے جو اس مقابلے میں لگا رہتا ہے۔ کہ کس چیز میں وہ دنیا میں کس نمبر ہے۔ چاہے بات سکولوں کی ہو یا مقامی اداکاروں کی۔ اسی لیے چنگی ایئر پورٹ سنگاپور کے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ یہاں تک کہ ایک انڈین صحافی نے ایک ٹویٹ میں یہ کہہ دیا تھا۔ کہ سنگاپوری لوگ چنگی ایئر پورٹ پر ’خامخواہ اتنا فخر‘ کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں انھیں خاصے شدید ۔اور دھواں دھار ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

لوگوں ميں مقبول

شہری ہوابازی کے تجزیہ کار اور کنسلٹنٹ، شکور یوسف بتانے ہیں۔ کہ عام لوگوں کے علاوہ سنگاپور کے سرکاری حکام بھی اپنے اس بین الاقوامی ایئر پورٹ کی عالمی درجہ بندی کا حساب کتاب بڑے ’مذہبی‘ جذبے سے رکھتے ہیں۔ شکور یوسف کے بقول اس ایئر پورٹ کا درجہ بندی میں اعلیٰ مقام سرکاری حاکم کو ’نہ صرف شیخی بگھارنے کا موقع دیتا ہے۔ بلکہ اس بات پر بھی مہر لگا دیتا ہے۔ کہ اس ایئر پورٹ پر بڑی بڑی فضائی کمپنیوں کی پروازیں آتی جاتی ہیں۔‘

اگرچہ کورونا کی وبا کے دنوں میں ایئر پورٹ کی ڈیوٹی فری دکانیں بالکل ویران پڑی رہیں لیکن اس دوران حکومت اپنے اس عزم کا زور وشور سے اظہار کرتی رہی کہ وبا کے بعد چنگی ایک مرتبہ پھر عالمی پروازوں کا ایک بڑا مرکز بن جائے گا۔ اسی لیے۔ حکومت نے اس عرصے میں شہری ہوائی بازی کے شعبے میں مزید ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی۔

چنگی ایئرپورٹ کا کنٹرول ٹاور

اس وقت سنگاپور کے وزیرِ ٹرانسپورٹ نے کہا تھا۔ شہری ہوابازی کی صنعت یہ یقینی بنانے میں ’انتہائی اہم‘ کردار ادا کرتی ہے۔ کہ یہ شہر عالمی تجارت اور بزنس کا ایک بڑا مرکز بنا رہے۔

عالمی مرکز

زیورخ کی ایک بڑی کاروباری شخصیت، ایلکس چین کا کہنا ہے۔ کہ ’اگر بہترین نہیں تو چنگی دنیا کے ان بہترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہے۔ جہاں سے پرواز بدلنا بہت اچھا لگتا ہے۔‘

ایلکس چین کو سال میں کم و بیش چار مرتبہ اپنے کام کے سلسلے میں سنگاپور سے گزرنا پڑتا ہے۔

ان کے بقول اگرچہ چنگی ایئر پورٹ ’بہت بڑا‘ ہے۔ لیکن یہاں کا انتظام بہت بہتر ہے۔ اور فرینکفرٹ اور ایمسٹرڈیم جیسے ایئرپورٹس کی نسبت آپ کا کام جلدی ہو جاتا ہے۔ میں عموماً 60 لوگوں کے بڑے گروپ کے ساتھ سفر کرتا ہوں۔ لیکن ابھی تک میں نے یہ نہیں دیکھا۔ کہ پرواز بدلنے میں ہم میں سے کسی مسافر کا سامان کھو گیا ہو۔ دنیا کے دوسرے بڑے ہوائی اڈوں پر۔ اپنی اگلی فلائیٹ مِس کر جانا عام سی بات ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ چنگی ایئر پورٹ پر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔‘

شکور یوسف کہتے ہیں۔ کہ حال ہی میں ہونے والی تکنیکی خرابی کے باوجود جس کی وجہ سے زمینی اور فضائی چیک پوائنٹس پر کئی گھنٹوں تک امیگریشن کلیئرنس میں خلل پڑ گیا تھا۔ بہت سے بین الاقوامی مسافر ٹرانزِٹ کے لیے۔ چنگی کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔ کیونکہ یہاں ان کے سفر میں خلل پڑنے کے امکانات کم ہیں۔

وہ کہتے ہیں۔ کہ ’اگر آپ کسی خاص ہوائی اڈے پر وقت۔ توانائی اور سرمایہ کاری کی مد میں اٹھنے والے اخراجات کو دیکھیں تو سنگاپور نے اب تک سب سے زیادہ کام کیا ہے۔

منفرد کنٹرول ٹاور

1990 کی دہائی میں، جب سنگاپور کے سرکاری ٹی وی پر لوگوں کو صرف ایک ڈرامہ سیریز دیکھنے کو ملتی تھی۔ تو اکثر اس کی ہر قسط کے آغاز میں جو چیز دکھائی جاتی تھی۔ وہ چنگی ایئرپورٹ کا مخصوص کنٹرول ٹاور ہوا کرتا تھا۔

اس سیریز میں اکثر کوئی ایسا کردار دکھایا جاتا تھا جو بہت عرصہ ملک سے باہر گزارنے کے بعد چنگی ایئر پورٹ پر اترتا ہے۔ ایک خوبصورت ٹیکسی میں بیٹھ کر حسین قدرتی نظارے دیکھتا ہوا گھر پہنچتا ہے۔ اور اس کے بعد اپنے رشتہ داروں کو بتاتا ہے۔ کہ سنگاپور کتنا تبدیل ہو گیا ہے۔ اس سیریز میں واقعی دکھانے کی چیز چنگی ایئر پورٹ ہی تھی۔ جس کا افتتاح جب سنہ 1981 میں ہوا تو اس کا ایک ہی ٹرمینل اور ایک ہی رن وے تھا۔

لوگوں کا لگاؤ

چنگی ایئر پورٹ کے ساتھ یہاں کے لوگوں کا لگاؤ واقعی پرانا ہے۔ جب سنہ 2019 میں اس کے شاپِنگ مال ’جیول‘ کا افتتاح ہوا تو پہلے چھ ماہ میں پانچ کروڑ لوگ اسے دیکھنے آئے تھے۔ اب اس کے پانچویں ٹرمینل پر کام جاری ہے۔ اور توقع ہے۔ کہ اسے بھی سنہ 2030 کے عشرے کے درمیانی برسوں میں پرازوں کی آمد ورفت کے لیے کھول دیا جائے گا۔

ایک مقامی وکیل اور سماجی امور کے مبصر، ایڈرئن ٹین کا کہنا تھا ’میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا کوئی دوسرا ایئر پورٹ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ مقامی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد اسے دیکھنے آتی ہے۔

مسٹر ٹین کہتے ہیں کہ اب یہ چیز ایک ’قومی رسم‘ بن چکی ہے۔ کہ جب بھی آپ کسی طویل سفر سے واپسی پر چنگی ایئر پورٹ پر اترتے ہیں تو یہ ضرور کہتے ہیں۔ ’واقعی یہ ایئر پورٹ دنیا کے تمام دوسرے ہوائی اڈوں سے کتنا بہتر ہے۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.