سینکڑوں جانیں بچانے والے’بائیک ایمبولینس دادا

ایمبولینس
مقامی لوگ کریم الحق کو احترام سے ’بائیک ایمبولینس دادا‘ کہتے ہیں

انڈین ریاست مغربی بنگال میں چائے کے باغات والے علاقے جلپائی گوڑی کے ایک گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں کریم الحق مریض کے پاؤں پر پٹی باندھ رہے ہیں۔ اسی وقت موبائل پر ایک کال آتی ہے۔ یہ ایمرجنسی کال ہے۔

یہ کال 8 کلومیٹر دور ایک گاؤں سے آئی ہے۔ وہاں ایک مریض کی طبیعت بگڑ گئی ہے اور اسے فوراً ہسپتال پہنچانا ہے۔

کریم الحق تیزی سے ڈریسنگ پوری کرتے ہیں اور فوراً ہی اپنی موٹر سائیکل لے کر مریض کے گاؤں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔

دھولا باڑی گاؤں کے کریم الحق اپنی موٹر سائیکل کو ایمبولینس کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ وہ گزشتہ 25 برس سے آس پاس کے تقر یباً 20 دیہات کے مریضوں کو مفت ہسپتال پہنچاتے رہے ہیں۔ مقامی لوگ انھیں ’بائیک ایمبولینس دادا‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

جلپائی گوڑی ضلع کے ان دیہات کی 70 ہزار کی آبادی کی اکثریت چائے کے باغات کے غریب مزدوروں پر مشتمل ہے۔ بیشتر راستے کچے ہیں اور کئی ندیاں ہیں جن پر پل نہیں۔

ماں کی موت سے جنم لینے والا عزم

ایمبولینس
،تصویر کا کیپشنکریم الحق ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد مریض کو اپنی ’موٹر سائیکل ایمبولینس‘ پر ہسپتال پہنچاتے ہیں

کریم الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں 25 سال سے بائیک ایمبولنس کا کام کر رہا ہوں۔ اب تک میں نے 6500 سے زیادہ مریضوں کو ہسپتال پہنچایا ہے۔ یہاں دیہات کے نزدیک ہسپتال نہیں۔ یہاں ایمبولینس یا گاڑی نہیں ملتی۔ اگر کچھ ہو جائے تو مریضوں کو 50 سے 70 کلومیٹر دور جلپائی گوڑی اور سلی گوڑی شہر کے ہسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ لوگوں کی ایمرجنسی کال رات میں، کبھی دیر رات گئے آتی ہے۔ میں وہاں جا کر اپنی موٹر سائیکل کے ذریعے انھیں ہسپتال پہنچاتا ہوں۔‘

کریم الحق کہتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کرنے کی ترغیب انھیں اپنی ماں سے ملی۔ برسوں پہلے کریم الحق کی والدہ علاج کے بغیر وفات پا گئی تھیں۔ ایمبولینس نہ ہونے کے سبب انھیں ہسپتال نہیں پہنچایا جا سکا تھا اور ان کی موت ہو گئی۔

’میری ماں بہت بیمار تھیں۔ میں ایمبولینس کے لیے ساری رات بھٹکتا رہا لیکن کوئی ایمبولینس یا گاڑی نہیں ملی۔ رات چار بجے ماں فوت ہو گئیں۔ میں نےاسی دن قسم کھا لی کہ میں گاؤں کے کسی شخص کو علاج کے بغیر مرنے نہیں دوں گا۔‘

کورونا کی وبا کے دوران یہاں کے لوگوں کی حالت بہت بری تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت یہاں کوئی گاڑی نہیں دیتا تھا۔ کورونا کے وقت میں نے دیہات سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ہسپتال پہنچایا۔ لاشیں بھی لے کر گیا، حاملہ عورتوں کی مدد کی۔‘

 ایمبولینس

ابتدائی طبی امداد

کریم الحق خود ٹی گارڈن ورکر ہیں۔ انھیں جو پیسے ملتے تھے اکثر اس کا بیشتر حصہ ایمبولینس کی دیکھ بھال اور پیٹرول پر خرچ ہو جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے بارے میں خبریں سوشل میڈیا پر آنے لگیں اور لوگوں نے ان کی مالی مدد کرنا شروع کی۔

لوگوں کی مدد سے ان کے گھر ایک کلینک بنایا گیا۔ شہر کے ڈاکٹروں نے انھیں اور ان کے دو بیٹوں کو پرائمری میڈیکل ایڈ کی ٹریننگ دی۔ اب وہ ٹانکے لگانا اور مرہم پٹی کرنا بھی سیکھ گئے ہیں۔

وہ اپنا کلینک دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں موٹر سائیکل ایمبولینس سے مریضوں کو پہلے یہاں لاتا ہوں۔ فرسٹ ایڈ دیتا ہوں۔ ویڈیو کال کے ذریعے ڈاکٹر سے مشورے بھی لیتا ہوں۔ میں ان کو مریضوں کی حالت کے بارے میں بتاتا ہوں تو وہ مجھے دوا بتا دیتے ہیں۔ میں سیلی گوڑی اور جلپائی گوڑی شہر کے ڈاکٹروں سے ادویات یہاں لاتا ہوں۔ ان دواؤں کو غریبوں کو دیتا ہوں۔ گھر پر کلینک کھلنے سے اطراف کے دیہات کے مریضوں کو بہت آسانی ہو گئی ہے۔‘

مقامی لوگ کریم ا لحق کی بہت عزت کرتے ہیں۔ قریب کے ایک دیہات کی رہائشی حسنہ بانو نے بتایا کہ ’برسات کی رات مجھے کھیت میں سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ کریم الحق نے اپنی بائیک ایمبولینس پر مجھے ہسپتال پہنچا کر میری جان بچائی۔‘

ہسپتال
،تصویر کا کیپشنکریم الحق اس عمارت میں ہسپتال قائم کرنا چاہتے ہیں

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.