کابل: مسجد میں بم دھماکہ، 21 اموات

کابل کے مضافاتی علاقے خیر خانہ کی صدیقیہ مسجد میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں بچوں سمیت 33 افراد زخمی بھی ہوئے۔

کابل
کابل ميں ايک سيکيورٹی اہلکار پہرہ دے رہا ہے

یہ دھماکا اس وقت ہوا، جب مسجد میں نماز ادا کی جارہی تھی۔ طالبان کے ایک سکیورٹی اہلکار نے کہا ہے کہ دھماکے کا ہدف مشہور مذہبی سکالر مولوی امیر محمد کابلی تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کچھ طالب علموں کے ساتھ ہلاک ہوئے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق گذشتہ تین ماہ کے دوران افغان دارالحکومت میں تین ممتاز مذہبی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور دیگر صوبوں میں بھی قتل کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔

کابل حملے کے زخمیوں میں کئی بچے بھی شامل

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق صدیقیہ مسجد میں ہونے والے حملے کے زخمیوں میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔

اے ایف پی نے کابل پولیس کی جانب سے جاری کردہ اعداد شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدھ کی رات ہونے والے اس حملے میں اب تک 21 افراد جان سے جا چکے ہیں۔

کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے اے ایف پی کو بتایا کہ ۔’دھماکہ مسجد میں نصب بم کے پھٹنے سے ہوا۔‘ اس سے قبل اسے خودکش حملہ رپورٹ کیا گیا تھا۔

کابل میں موجود سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ایک ٹویٹ میں اس حملے کی مذمت کی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اٹلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ایمرجنسی‘، جو کابل کے ایک ہسپتال کی منتظم ہے، نے 27 زخمیوں کی ہسپتال آمد کی تصدیق کی، جنہیں یا تو شیل لگے یا ان کے جسموں پر جلنے کے نشانات تھے۔ ایمرجنسی نے بتایا کہ زخمیوں میں پانچ بچے بھی تھے۔

بعد میں ایک ٹویٹ میں ایمرجنسی نے بتایا کہ۔ زخمی بچوں میں ایک کی عمر سات سال تھی۔

ایمرجنسی کے افغانستان میں سربراہ سٹیفنی سوزا نے روئٹرز کو بتایا: ۔’ہمارے پاس دو لاشیں آئی تھیں جبکہ ایک شدید زخمی شخص کی موت دوران علاج واقع ہوئی۔‘

سٹیفنی نے بتایا کہ اگست میں اب تک ہسپتال میں 80 زخمیوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔ جو مختلف واقعات میں زخمی ہوئے تھے

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.