58 برس قبل جدا ہونے والے بیٹے نے اپنی ماں کو کیسے ڈھونڈا؟

ماں سے بچھڑے بيٹے کی ملاقات

ٹموتھی ویلچ ان ہزاروں بچوں میں سے ایک تھے جنھیں 1960 کی دہائی میں گود لیا گیا تھا۔ وہ صرف چھ ہفتے کے تھے جب وہ اپنی ماں جون میری فیلپس سے الگ ہو گئے تھے، جو اس وقت 18 سال کی تھیں۔

پیشے کے اعتبار سے ٹموتھی کی عمر اب 59 برس ہے اور وہ لندن میں رہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے گود لینے والے والدین نے ہمیشہ مجھے بتایا کہ آپ خاص ہیں، آپ ہمارے پاس ایک مختلف طریقے سے آئے ہیں۔‘

’ان کے اپنے بچے نہیں تھے، اس لیے انھوں نے مجھے گود لے لیا۔‘

بل اور یونیسی کی وفات تک ٹموتھی نے اپنی حقیقی ماں کو تلاش کرنے پر کبھی غور بھی نہیں کیا تھا۔ سنہ 2018 میں بل اور 2020 میں یونیسی کی وفات ہوئی۔

ٹموتھی کا کہنا ہے کہ ’ایک گود لیے ہوئے بچے کے طور پر آپ ہمیشہ اپنے حقیقی خاندان کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘

’میں سوچتا تھا کہ میں کون ہوں، میری شخصیت میں کچھ خاص خصوصیات جو میرے گود لینے والے خاندان سے مختلف تھیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو میں نے دنیا اور اپنے بارے میں مختلف محسوس کیا۔‘

’ایک خیر خواہ نے مجھے بتایا کہ جب گود لینے والے والدین مر جاتے ہیں، تو لوگ اکثر اپنے ہی ورثے کے بارے میں دوبارہ متجسس ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم سب ایک تعلق کی تلاش میں رہتے ہیں ۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ آپ سوچتے ہیں کہ اب کیا؟‘

ماں کی تلاش

ٹموتھی نے کچھ پرانی خاندانی تصاویر کو دیکھنے کے بعد جنوری 2022 میں اپنی حقیقی ماں کی تلاش شروع کی۔

انھوں نے بتایا کہ ’مجھے اپنی جائے پیدائش کی ایک تصویر ملی ۔ اس تلاش کے دوران علم ہوا کہ وہاں پیدا ہونے والے افراد اور ان کی ماؤں کے خاندانوں کے لیے ایک فیس بک گروپ موجود ہے۔‘

میں نے گروپ میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی اور ماڈریٹر، پینی گرین نے میری کہانی پوچھی۔‘

ٹموتھی اور ان کو گود لینے والے والدین، بل اور یونیسی

پینی گرین بیڈفورڈ شائر کی ایک سابقہ چیریٹی ورکر ہیں جنھوں نے بیپٹسٹ چرچ کے زیر انتظام ادارے ’دی ہیون‘ سے وابستہ ماؤں اور بچوں کے لیے فیس بک گروپ بنایا۔

62 سالہ پینی نے وضاحت کی کہ اکیلی مائیں یہاں بچوں کو جنم دیتیں اور ان کے بچے یہاں گود دیے جانے کے لیے رکھ لیے جاتے، اکثر ایسا جبری طور پر ہوتا تھا۔

انھوں نے کہا ’اس وقت نظریہ یہ تھا۔ کہ وہ اکیلی ماؤں پر احسان کر رہے تھے کیونکہ اکیلی ماں ہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘

یٹلی سوسائٹی کے مطابق ’دی ہیون‘ 1945 سے 1970 تک کھلا تھا اور وہاں تقریباً 1,800 بچے پیدا ہوئے۔

پینی کی ماں کی عمر 16 سال تھی۔ جب ان کے والدین نے انھیں وہاں بھیجا تھا کیونکہ وہ اکیلی اور حاملہ تھیں تاہم بہت سی نوجوان ماؤں کے برعکس انھوں نے اپنی بیٹی کو ترک کرنے سے انکار کر دیا۔

پینی کے مطابق اس کے بعد ان کی ماں نے اپنا نام تبدیل کیا اور لوگوں کو بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں لیکن بچے کے والد ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

جبری گمشدگی

ٹموتھی کا یہ بھی ماننا ہے کہ ان کی ماں سے انھیں جبری طور پر لیا گیا تھا۔

پینی نے کہا کہ اگرچہ ’دی ہیون‘ میں کچھ مائیں جانتی تھیں کہ ان کے بچوں کو لے جایا جا رہا ہے لیکن انھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کب الوداع کہہ سکتے ہیں۔

’کچھ مائیں اس قدر صدمے سے دوچار تھیں کہ وہ روپوش ہو گئیں۔ اور ماضی کو سامنے لانے سے بہت خوفزدہ تھیں۔‘

پینی کے مشورے کے بعد، ٹموتھی نے اپنے اصل پیدائشی سرٹیفکیٹ کی ایک نقل کے لیے جنرل رجسٹرار کے دفتر کو درخواست دی، جس میں ان کی حقیقی ماں کا پورا نام، تاریخ اور جائے پیدائش درج تھا۔

اس کے بعد، پینی نے انھیں تلاش کرنے کے لیے انتخابی فہرست اور انٹرنیٹ کا استعمال کیا۔

ٹموتھی نے اپنی ماں کے موجودہ شوہر مائیکل مورٹیمر کو تلاش کیا۔

ٹموتھی نے مورٹیمر کو اپنا ای میل فراہم کیا۔ جسے انھوں نے ٹموتھی کے بھائیوں کو بھیج دیا۔ اور انھوں نے لندن میں ملاقات کے لیے ایک دن کا بندوبست کیا۔

خوشی

ٹموتھی کہتے ہیں ’وہ دونوں حیرت انگیز آدمی ہیں، مہربان، دیکھ بھال کرنے والے اور سوچنے والے۔‘

’میں اپنی زندگی کے اس مرحلے پر ان سے مل کر بہت خوش قسمت محسوس کرتا ہوں اور میں ان سے اور ان کے خاندانوں کو جانک ر واقعی لطف اندوز ہونے جا رہا ہوں۔‘

58 سال کے وقفے کے بعد 19 ستمبر 2022 کو گریگ ٹموتھی اپنی حقیقی ماں سے ملے۔ ’یہ پہلی بار تھا جب میں نے اپنی ماں کی آنکھوں میں خود کو دیکھا۔ یہ جذباتی تھا۔‘

’ہم نے بہت سی چیزوں کے بارے میں بات کی لیکن جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ انھیں دیکھنا اور ان سے بات کرنا تھا۔‘

ٹموتھی نے کہا کہ اس ملاقات کے بعد سے وہ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں تفصیلات جمع کرنا شروع کر رہے ہیں۔

’میری ماں 17 سال کی تھیں جب وہ حاملہ ہوئیں۔ ایک سال یا اس سے پہلے ان کا ایک اور بچہ تھا، جب وہ 16 سال کی تھیں، جسے گود لینے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے نہیں دیکھا۔‘

’وہ تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھیں، ان کی ایک بہن تھی، آڈری، جو ان سے دس سال بڑی تھی، اور ایک بھائی، بل، آٹھ سال بڑا تھا۔ وہ ابھی تک زندہ ہیں۔‘

’میرے والد کا نام ہدایت ماماگان زردی تھا اور وہ ایک ایرانی مسلمان تھے۔ ان کا رومانس تھا اور آکسفرڈ میں رات کو رقص پسند کرتے تھے۔‘

اصل والدين

’میرے اصل والد اور بڑے بھائی کو تلاش کرنے کی کوششیں بہت ابتدائی مرحلے میں ہیں۔‘

ٹموتھی بتاتے ہیں کہ جون نے 1966 میں شادی کی اور ان کے دو اور بچے تھے۔ ان کے بھائی، جن سے وہ اب رابطے میں ہیں۔

اپنے خاندان کو تلاش کرنے کے اپنے تجربے پر غور کرتے ہوئے۔ ٹموتھی نے کہا ’آپ کو کھلے ذہن کے ساتھ مضبوط رہنا ہوتا ہے۔ اب میرے بہن بھائی ہیں، اور یہ میرے لیے دلچسپ ہے۔ میں اپنی ماں سے ملنے جا رہا ہوں۔ اور اب میں ان سے ملنے کا منتظر رہتا ہوں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.