پاکستان میں سیلاب سے فصلیں تباہ، غذائی بحران کا خطرہ

ابتدائی تخمینوں کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں سیلاب کی وجہ سے19 لاکھ ٹن چاول ضائع ہو گیا ہے۔ گنے کی 88 اور کپاس کی 61 فیصد فصلوں کا نقصان ہوا، ان فصلوں کی تباہی سے صرف سندھ میں معیشت کو سولہ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔

سيلاب
سيلاب سے غذائی بحران کا خطرہ

پاکستان کے صوبوں۔ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے درجنوں اضلاع میں سیلاب نے وسیع پیمانے پر زرعی اراضی کو تباہ کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کی جلد ازجلد  بحالی نہ ۔کیگئی تو ملک کو جلد ہی خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بلوچستان کے ضلع پشین میں ایک خاتون کسان نازیہ بی بی نے بتایا۔ ”ہمیں تشویش ہے۔ کہ اگر ابھی کھیتوں کی نکاسی نہ کی گئی تو ہم سردیوں کے موسم کے لئے فصلیں نہیں لگا سکیں گے۔ جن میں سب سے اہم گندم کی فصل ہے۔” زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے حکومت نے خوراک کی سلامتی کے بحران سے خبردار کیا ہے۔ پاکستانی حکام کو  پہلے ہی پڑوسی ملک افغانستان اور ایران سے ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔

دارالحکومت اسلام آباد میں ایک دکان دار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ فی الحال فروخت کرنے کے لیے سبزیوں کا نیا اسٹاک خریدنے سے قاصر ہے۔ اس دکان دار ک مطابق ۔”میں پیاز اور ٹماٹر کے درآمدشدہ ذخیرے کے گوداموں تک پہنچنے کا انتظار کر رہا ہوں تاکہ اسے وہاں سے خریدنے کے بعد آگے فروخت کر سکوں۔”

غذائی معاونت درکار

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ۔(این ڈی ایم اے) اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر امدادی کاموں کی سربراہی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے خوراک سے متعلق ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اب تک بلوچستان۔ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد کو غذائی معاونت مہیا کر چکا ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے ستمبر کے مہینے میں صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے۔ کہ اس کا مقصد سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں غذائی عدم تحفظ کا شکار 19 لاکھ افراد  کے لیے اپنی غذائی معاونت کو توسیع دینا ہے۔ایک  سماجی کارکن اور سندھ کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر عابد میر کے مطابق۔ ” مختلف دیہاتوں میں حالات اس قدر سنگین ہیں کہ خوراک کی تقسیم کے دوران لوگ ایک دوسرے سے خوراک کے تھیلے چھین رہے ہیں۔ یہ دیکھنا واقعی دل دہلا دینے والا ہے۔”

غذائی امداد کا کچھ حصہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی  اپنے صوبائی ہم منصبوں کے ذریعے تقسیم کرتی ہے۔ بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایک عہدیدار محمد یونس نے بتایا کہ دیگر غذائی ریلیف براہ راست بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔، ”بین الاقوامی این جی اوز کے اپنے مقامی شراکت دار ہیں جنھیں وہ اپنی امداد مہیا کرتے ہیں۔ ان کا نقصانات اور متاثرین کا جائزہ لینے کے اپنے طریقے ہیں. انہیں حکومت سے کسی خاص علاقے میں کام کرنے کی اجازت حاصل کرنی چاہیے۔”

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.