نیوزی لینڈ نے آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں پر ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی ہے. اور جو مویشیوں کے ڈکاریں لینے، ہوا خارج کرنے اور پیشاب کرنے پر بھی عائد ہوں گے۔
دنیا میں اپنی نوعیت کے اس پہلے اقدام کے تحت کسانوں کو سنہ 2025 تک کسی نہ کسی شکل میں زرعی اخراج پر ادائیگی کرنا پڑ سکتی ہیں۔
مضر گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی ملکی اخراج میں زراعت کی صنعت سے ہونے والے اخراج کا تناسب تقریباً نصف ہے۔
لیکن کسانوں نے اس منصوبے کو فوری طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ایک لابی گروپ نے کہا ہے. کہ یہ "چھوٹے سے ملک نیوزی لینڈ کا کچومر نکال دے گا۔’
وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا. کہ مجوزہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کو صنعت میں واپس لایا جائے گا .تاکہ کسانوں کے لیے نئی ٹیکنالوجیوں.تحقیق اور مراعاتی ادائیگیوں کی مالی اعانت کی جاسکے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ .”نیوزی لینڈ کے کسان زرعی اخراج کو کم کرنے کے لیے پہل کرنے کے لے تیار ہیں، جس سے سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہونے کے لیے مسابقتی فائدہ ہو گا .خاص طور پر ایک ایسی دنیا میں جو اپنی خوراک کے بارے میں زیادہ حساس ہو گئی ہے۔
اس ٹیکس کی شرح کا ابھی تعین نہیں کیا گیا ہے. لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ کسان ماحول دوست پیداوار کے زائد نرخوں سے ٹیکس کی لاگت کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
لیکن کچھ کسانوں نے ان منصوبوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے. کہ بہت سے کسان اپنی فارموں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔