’آگ بجھانا فارسٹر محمد شکور کے فرائض میں نہیں تھا لیکن افرادی قوت کم ہونے کی وجہ سے وہ خود ہی آگ بجھانے کے لیے فرنٹ لائن پر چلے گئے۔ ان کے ساتھی محمد اعجاز بھی محکمہ جنگلات میں عارضی واچر تھے۔ عموماً ان کو گرمیوں میں بلایا جاتا تھا جب کام نہ ہوتا تو یہ دیہاڑی پر مزدور کرتے تھے۔‘
محمد شکور اور محمد اعجاز 9 جون کو بھمبر کے جنگلات میں لگنے والی آگ کو بھجانے کی کوشش میں شدید زخمی ہو کر ہسپتال میں زیر علاج تھے لیکن دونوں 13 اور 14 جون کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
پاکستان کے زیر انتظام بھمبر کے مقامی صحافی سید بدر السلام جعفری محکمہ جنگلات کے ان دونوں اہلکاروں کے قریبی پڑوسی ہیں۔
بدر السلام کہتے ہیں کہ ’آگ بجھانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے محکمہ جنگلات کے فارسٹر محمد شکور اور فائر فائٹر محمد اعجاز کی المناک موت سے پورا علاقہ سوگوار ہے۔‘
بدر السلام جعفری کے مطابق محمد شکور نے سوگواروں میں دو بیٹے، دو بیٹیاں اور بیوہ چھوڑے ہیں اور وہ صرف فارسٹر ہی نہیں ایک سماجی کارکن بھی تھے۔
’مقامی لوگ اپنی مسائل ان کے پاس لے کر جاتے تھے اور وہ ان مسائل کو حل کرنے میں مدد کرتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا آگ بجھانا ایک فارسٹر کے فرائض میں شامل نہیں ہوتا اور عموماً فارسٹر پیچھے رک کر واچرز اور فائر فائٹرز سے کام کرواتے ہیں مگر حالیہ دنوں میں جب آگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے اور افرادی قوت میں کمی کا مسئلہ درپیش ہوا تو پھر محمد شکور خود بھی موقع پر جاتے اور اپنے سٹاف اور عملے کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔
بدر السلام کے مطابق یہ محمد شکور کی اپنے فرض سے محبت کی ایک نشانی ہے جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور اگر وہ نہ بھی جاتے تو اس بات پر ان کی کوئی بھی جواب دہی نہیں ہونی تھی۔
بھمبر کے جنگلوں میں آگ، عملے کے لوگ کیسے جھلس گئے؟
محکمہ جنگلات کے میرپور کنزویٹر آفسیر شیخ حمید کے مطابق اس واقعہ میں سات افراد زخمی ہوئے تھے۔ جس میں سے دو کی حالت ابھی بھی نازک بتائی جا رہی ہے جبکہ تین کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
شیخ حمید کے مطابق نو جون کو رات کے وقت بھمبر کے جنگلات میں تیز آتشزدگی کی اطلاعات مل رہی تھیں۔
’عموماً رات کے وقت کارکناں کام نہیں کرتے مگر فارسٹر محمد شکور، محمد اعجاز اور ان کے ساتھی اسی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اس لیے وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موقع پر چلے گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ذاتی بچاؤ کا مناسب حفاظتی انتظام موجود تھا لیکن ’یہ انتظام کچھ لمحوں تک تو آگ کی تپش اور شعلوں سے محفوظ رکھتا ہے مگر یہ دروانیہ منٹوں پر محیط نہیں ہوتا۔ اگر آگ کے شعلوں میں پھنس جائیں تو یہ حفاظتی انتظام جواب دے جاتا ہے۔‘
شیخ حمید کا کہنا تھا کہ ’محمد شکور، محمد اعجاز پہاڑی علاقے کے جنگل میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس موقع پر تیز ہوا چلی، جس نے آگ کو مزید تیز کیا۔ پہلے انھیں ہوا نے گھیرا اور پھر وہ شعلوں میں پھنس گئے تھے۔ اب نہ وہ اوپر جا سکتے تھے اور نہ نیچے کی طرف سفر کرسکتے تھے۔‘
شیخ حمید کا کہنا تھا کہ ’شکور اور اعجاز کا جسم ستر فیصد سے زیادہ جل گیا تھا۔ وہ چند دن ہسپتال میں زیر علاج رہے مگر آگ کی تپش نے آہستہ آہستہ اپنا کام دکھا اور وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تین افراد کو اس موقعے پر ایک طرف موجود جھاڑیوں پر چھلانگ لگانے کا موقع مل گیا تھا۔ انھوں نے اس کو آخری موقع سمجھتے ہوئے جھاڑیوں پر چھلانگ لگا دی تھی۔ جس وجہ سے وہ کم زخمی ہوئے اور ان تینوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘
بدر السلام کہتے ہیں کہ ’میرا گھر ان چیڑ کے جنگلات کے قریب ہے۔ آگ پر تو قابو پا لیا گیا مگر اس کے باوجود جنگلات میں لگنے والی آگ کی تپش ہم ابھی بھی محسوس کر رہے ہیں۔‘
’چار ماہ سے بارشیں نہیں ہوئی، جنگل بارود کے ڈھیر بن چکے ہیں‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ جنگلات کے مطابق کشمیر کے مختلف مقامات پر آگ لگنے کے کوئی تقریباً دو سو واقعات ریکارڈ ہو چکے ہیں، جس میں اب تک تقریباً 2200 ہیکٹر کا علاقہ متاثر ہوا۔
کشمیر میں آگ لگنے کے واقعات میں سب سے متاثرہ علاقہ میرپور سرکل ہے، جس میں تین اضلاع میرپور، بھمبر اور کوٹلی آتے ہیں۔
شیخ حمید کے مطابق ’اس وقت ہمارے علاقوں میں بہت سخت گرمی پڑ رہی ہے۔ یہ شاید ریکارڈ توڑ گرمی ہے۔ اوپر سے چار ماہ سے بارشیں نہیں ہوئی۔ جس وجہ سے جنگل بارود کے ڈھیر بن چکے ہیں۔‘
شیخ حمید کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پاس دور دراز کے علاقوں کے لیے تقریباً ستر کے قریب ٹو سٹروک مشینیں بھی ہیں۔ ہمارے کارکن ان میں پانی ڈال کر ان کو اٹھا کر کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر موقع پر پہنچتے ہیں، جہاں پر ان کی مدد اور دیگر طریقوں سے آگ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بعض اوقات جیپوں وغیرہ میں پانی کی ٹینکیاں رکھ کر لے کر جاتے ہیں مگر کوئی ایک دو، دس، بیس واقعات ہوں تو ان پر قابو پا کر ان کو پھیلنے سے روک بھی سکتے ہیں مگر اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ جنگل بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ معمولی سے انسانی غلطی ماچس کی تھیلی، سگریٹ بڑی آگ کا سبب بن جاتا ہے۔ ‘
شیخ حمید کا کہنا تھا کہ ’یہاں تک کہ ہمارے پاس جنگل میں شادی بیاہ کے گولہ پھینکے پر بھی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ جنگل آگ لگنے کے لیے کتنا حساس ہو چکا ہے۔‘
عملے کو آگ سے نمٹنے کی کتنی تربیت ہے؟
محکمہ جنگلات کشمیر ہیڈ کوارٹر کے ڈی ایف او اسد ہمدانی کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس موجود عملے کو ساری ملازمت میں ایک مرتبہ ہی جنگل کی آگ سے نمٹنے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے، جس کے بعد وہ اپنے تجربے ہی سے سیکھتے رہتے ہیں۔ جنگل کی آگ سے نمٹنا فارسٹ گارڈز کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر ان کے پاس بنیادی وسائل کچھ کم ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ عملے کے پاس تو فائر کٹ وغیرہ موجود ہوتی ہیں مگر سو فیصد عملے کے پاس نہیں ہیں۔ ہمارے پاس آگ بجھانے والے مختلف آلات تو موجود ہیں مگر کچھ مقامات پر یہ بھی کم ہیں۔‘
اسد ہمدانی کا کہنا تھا کہ اسی طرح ہمارے عملے کو نقل و حرکت میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے بتایا کے محکمے کے افراد آگ کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ہم لوگ ضلعی انتظامیہ سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ایسے کسی بھی واقعے میں جہاں پر افرادی قوت کی ضرورت پڑے وہاں پر انتظامیہ سے مدد لی جاتی ہے جو ہمیں افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔
محکمہ جنگلات صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ایسٹ کے کنزویٹر گوہر علی کے مطابق جنگلات میں لگنی والی آگ دو قسم کی ہوتی ہیں۔ جس میں ایک کراؤن اوردوسری گراونڈ کہلاتی ہے۔
’کراؤن میں آگ درختوں کے اوپر لگتی ہے۔ جس میں درختوں کو نقصان پہچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ تیزی سے پھیلتی ہے اور خطرناک ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ آگ عموما نہیں لگتی لیکن اس کی حالیہ مثال ہم نے بلوچستان کے جنگلات میں چلغوزے کے جنگلات میں دیکھی جو کہ خیبر پختونخوا تک پہنچ گئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مئی سے جولائی تک کا عرصہ فائر زون کا عرصہ کہلاتا ہے، اس میں عموماً جنگلات میں آگ لگتی ہے۔
’یہ زیادہ تر گراونڈ آگ ہوتی ہے جو زمین پر لگتی ہے۔ اس میں درختوں کو زیادہ نقصاں نہیں پہنچتا۔ محکمہ جنگلات کے سٹاف میں 100 میں سے 30 افراد اس آگ پر قابو پانے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔‘گوہر علی کے مطابق ’ہمارے فارسٹ گارڈز کے پاس اس آگ پر قابو پانے کے لیے بنیادی وسائل بھی موجود ہیں۔ جس میں آگ بجھانے والے سیلنڈر بھی شامل ہیں جبکہ ان کی اپنی حفاظت کے لیے چشمے اور لباس بھی موجود ہوتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ جنگلات دور دراز ہوتے ہیں مگر ہر جنگل کے آخری کونے میں بھی فارسٹ گارڈ لازمی ہوتا ہے جبکہ مئی سے لے کر جولائی تک تو فارسٹ گارڈ الرٹ بھی ہوتا ہے اور محکمہ بھی الرٹ ہوتا ہے۔
’جب کسی بھی مقام پر آگ لگتی ہے تو اس کی اطلاع فوراً دفاتر میں پہنچائی جاتی ہے۔ بعض اوقات اس میں مواصلاتی رابطے نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہوتے ہیں مگر اس کے لیے دوسرے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔‘گوہر علی کہتے ہیں کہ آگ کا تجزیہ فارسٹ گارڈ، فارسٹر اور مقامی کمیونٹی خود کرتی ہے اور اگر انھیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ضلعی انتظامیہ مدد فراہم کرتی ہے۔ جس میں ریسیکو 1122 کے علاوہ پولیس، رضا کار اور دیگر اہلکار ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مئی اور جولائی کے عرصے میں آگ سے بچنے کے لیے پہلے سے حفاظتی اقدامات بھی کیے تھے۔ جس کے نتیجے میں سرکاری جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات انتہائی کم ہوئے ہیں جبکہ زیادہ تر اس سے پرائیوٹ جنگلات متاثر ہوئے ہیں اور اس کی وجہ بھی بے احتیاطی تھی۔
گوہر علی کہتے ہیں کہ ’ہمارے سامنے امریکہ، نیوزی لینڈ، آسڑیلیا اور دیگر انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ جب وہاں پر جنگلوں میں آگ بھڑک اٹھی تو وہ بھی اس پر قابو پانے میں ناکام ہوئے اور وہاں پر جانی اور مالی نقصاں ہوا۔ اس وقت محکمہ جنگلات اپنی نوعیت کی انتہائی خطرناک آگ کو دیکھ رہا ہے۔ اس سے مؤثر طور پر نمٹا بھی گیا۔‘ گوہر علی کے مطابق ہیلی کاپٹر اور وہ بھی خصوصی قسم کا ہیلی کاپٹر جو فوم پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ آگ کے دوران اور بالخصوص کراؤن آگ کے دوران تو فائدہ مند ہوسکتا ہے لیکن گراونڈ آگ اگر زیادہ پھیل جائے تو اس کے لیے زیادہ انفرادی قوت درکار ہوتی ہے۔‘
آگ مددگاروں کے لیے بھی بڑا خطرہ
پاکستان کے مختلف علاقوں کے جنگلوں میں لگنے والی آگ جہاں جنگلات اور جانوروں کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے وہیں یہ انسانی جانیں بھی نگل رہی ہے۔ مقامی افراد کے ساتھ ساتھ آگ بجھانے والے اور ریسکیو کے افراد بھی اس آگ کا نوالہ بن رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے پہاڑی علاقے کے جنگل میں آگ لگنے کے واقعے میں آگ بجھانے کی کوشش میں ریسیکو 1122 کے اہلکار نظام اللہ بھی جان کی بازی ہار گئے۔
ان کے ساتھی سہیل احمد کا کہنا تھا کہ ’اگر نظام اللہ شعلوں کے درمیان میں نہ ہوتے تو شاید بچ جاتے۔ اس واقعے میں نظام کے ساتھ موجود چار امدادی کارکن بے ہوش ہو گئے تھے۔ جنھیں اوپر پہاڑی علاقے سے نیچے لا کر طبی امداد فراہم کی گئی تھی‘۔
ریسیکو 1122 اور محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کے مطابق ان واقعات میں ریسیکو اہلکار سمیت دس لوگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقوں میں آگ لگنے کے واقعات ابھی بھی جاری ہیں۔ ریسیکو 1122 کے مطابق اب تک آگ لگنے کے سب سے زیادہ واقعات ایبٹ آباد میں پیش آئے ہیں جبکہ انتہائی سنگین واقعہ چلغوزے کے جنگلات میں پیش آیا، جہاں پر غالباً سب سے زیادہ مالی نقصان کے علاوہ تین افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب شانگلہ میں لگنے والی آگ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
وسائل موجود مگر جنگل کی آگ کے مقابلے میں نہیں
ڈائریکٹر ریسیکو 1122 ایمرجنسی آپریشن انجیئر ناصر خان کہتے ہیں کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ہمارے مختلف یونٹ ہیں جس میں میڈیکل، فائر فائٹنگ اور دیگر تربیت یافتہ کارکناں ہیں جو ہر قسم کی ایمرجنسی سے نمٹ سکتے ہیں اور ان کے پاس وسائل بھی موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جنگل اور پہاڑی علاقوں میں لگنے والی آگ بے قابو ہوتی ہے جو ایک دم تیزی سے پھیلتی ہے۔ جس مقام کو آگ سے محفوظ سمجھا جاتا ہے، وہاں تک آگ پہچنے میں منٹ بھی نہیں بلکہ لمحے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ کسی مقام پر آگ بھجا دیں تو تھوڑی دیر بعد اسی مقام پر دوبارہ لگ جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد میں سب سے زیادہ آگ لگنے کے واقعات ہوئے ہیں مگر وہاں پر ہمارے پاس سڑک اور متاثرہ مقام تک جلدی پہنچ جانے کے راستے موجود تھے مگر سوات، شانگلہ، دیر، مالاکنڈ، کوھستان، بٹگرام، تورغر کے جنگلات اور پہاڑ بہت دور دراز علاقوں میں واقع ہیں، جہاں پر عموما گھنٹوں پیدل چلنا پڑتا ہے۔‘
’ان دور دراز پہاڑی علاقوں اور جنگلات میں پانی یا فائر بریگیڈر یا دیگر آلات وغیرہ پہنچانا آسان نہیں۔ ہمارے کارکن مقامی اور دیسی طریقوں ہی سے آگ سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
انجینیئر ناصر خان کہتے ہیں کہ جنگل اور پہاڑی علاقوں میں لگنے والی آگ بجھانے کا سب سے مؤثر ذریعہ فضا ہی سے ہے۔
’اگر ہمارے پاس ہیلی کاپیٹر کی سہولت ہوتی تو شاید ہم بہت جلدی اس صورتحال پر قابو پا لیتے مگر ہمارے پاس یہ سہولت فی الحال دستیاب نہیں۔ ‘