پیٹرول مہنگا ہونے کی پیشن گوئی اخبار میں پڑھی تو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ایک انجینیئر نے سولر کار بنانے کا بیڑا اُٹھایا اور 13 سال میں الیکٹرو ۔ سولر کار بنا ڈالی۔
40 سالہ کشمیری انجینیئر بلال احمد میر نے جذباتی انداز میں کہا ‘میں نے بغیر پیٹرول یا ڈیزل کے سولر انرجی پر چلنے والی کار تو بنا دی ہے، لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں، میرے پاس بھی پیسے ہوتے تو میں انڈیا کا ایلون مسک ہوتا۔’
لیکن 13 سال تک اس انوکھے آئیڈیا پر دن رات کام کرنے اور نِجی کوچنگ سینٹروں میں بچوں کو پڑھا کر کمائے گئے لاکھوں روپے اسی منصوبے میں جھونکنے کے باجود بلال آج بہت خوش ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں کہتا کہ یہ پرفیکٹ کار ہے، لیکن حکومت نے اسے پیٹنٹ بھی کیا ہے، اس میں آگے کام کرنے کے لیے مجھے مناسب پلیٹ فارم چاہیے تب جا کے یہ کام لوگوں کے لیے راحت بنے گا۔‘
بلال کہتے ہیں کہ بجلی پر چارج کرنے کے بعد اس گاڑی کے چاروں طرف لگے سولر پینل سورج کی روشنی سے تین گھنٹے تک چارج ہوتے ہیں جس کے بعد یہ 200 کلومیٹر تک چل سکتی ہے اور اس کی رفتار 150 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی جاسکتی ہے۔
آئیڈیا کیسے آیا؟
بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد بلال انڈیا کی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور چلے گئے جہاں انھوں نے ایک انجینیئرنگ کالج سے بی ٹیک کی ڈگری لی اور 2005 میں کشمیر لوٹے۔ یہاں انھوں نے کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں وزیٹنگ لیکچرر کے طور کام کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اسی دوران میں نے ٹائمز آف انڈیا میں ایک مضمون پڑھا، جس میں ماہرین نے لکھا تھا کہ 10 سال بعد انڈیا میں پیٹرول کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ میں نے کافی سوچا اور پھر خیال آیا کہ میں پیٹرول، ڈیزل یا گیس کے بغیر چلنے والی گاڑی بناوٴں گا۔‘
بلال نے 2009 میں ایک پُرانی کار خریدی اور اپنے آئیڈیا پر کام کرنے لگے۔
چنئی سے چین تک ہر جگہ سے سامان لایا
پہلا کام بلال نے یہ کیا کہ ایک سیکنڈ ہینڈ کار خریدی اور اُس کے ایندھن کے نظام کو بجلی کے نظام سے بدلا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم اس کو سو فیصد سولر کار نہیں کہہ سکتے، لیکن جو سولر پینلز اس میں چاروں طرف ہیں وہ اسے زیادہ کارآمد بناتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا فائدہ یہ ہے کہ دھوپ میں چلتے ہوئے بھی یہ گاڑی خودبخود چارج ہو جاتی ہے۔‘
بلال کہتے ہیں کہ انھوں نے Lead Acid بیٹری کا استعمال کیا ہے، جو بہت وزنی ہوتی ہیں اور گاڑی کی مائلیج کو متاثر کرتی ہیں۔
’اصل میں ہمیں Lithium Ion بیٹری استعمال کرنی چاہیے، جو بہت ہلکی ہوتی ہیں، جگہ بھی کم گھیرتی ہیں اور انہیں استعمال کر کے یہی کار ایک چارج پر 200 کلومیٹر کا سفر کرسکتی ہے۔‘
ریموٹ سینسرز سے لیکر ہائیڈرولک پمپس اور آٹوسینسرز جیسے سازو سامان کے لیے بلال نے کئی سال صرف کیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے جو یہاں سے ملا میں نے لیا۔ یہاں مجھے جو سولر پینلز ملے وہ پالی کرسٹلین تھے اور وہ جلدی چارج نہیں ہوتے تھے۔ پھر میں جنوبی انڈیا میں چنئی گیا، وہاں سولر توانائی کے ایک ماہر نے مجھے معیاری پینلز کا پتہ بتایا۔ پھر ہر جگہ سے تھوڑا تھوڑا سامان لیا، یہاں تک کہ بہت سارے اوزار اور چیزیں میں نے چین سے منگوائیں۔‘
‘میں سستی مگر لگژری کار بنانا چاہتا تھا’
اس گاڑی کے دروازے آگے کی بجائے اوپر کی طرف کھُلتے ہیں۔ اس کی بلال دو وجوہات بتاتے ہیں۔
’ایک تو مجھے ایسی گاڑی بنانی تھی جس پر پیٹرول یا ڈیزل کا خرچہ نہ ہو۔ بجلی پر چلنے والی ایسی گاڑیاں بنائی جارہی ہیں، لیکن وہ لگژری نہیں۔ میں نے برطانیہ کی ڈولورین موٹر کمپنی کی مشہور گاڑی کو اپنا ماڈل بنایا۔
دروازے اوپر کی طرف کُھلنے سے یہ کار شاہانہ دکھتی ہے اور دوسرا فائدہ ہے کہ ان دروازوں پر سولر پینلز لگے ہیں، دھوپ میں دروازہ اوپر کیریں تو گاڑی چارج بھی ہوجاتی ہے۔‘
سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ بلال کی گاڑی کی تصویر کو ٹویٹ کرتے وقت لکھا ’سولر کار کے ڈیلورین سٹائل دروازے، واقعی مستقبل کی طرف۔‘
‘میرا واحد مددگار پروفیسر کوِڈ سے انتقال کرگیا’
کشمیر میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر غلام محمد بٹ نے بلال کی کئی سال تک حوصلہ افزائی کی۔
انھوں نے بلال کے اختراعی ہنر کو نکھارنے کے لیے انڈیا کی قومی اختراعی فاونڈیشن ’این آئی ایف‘ سے انہیں مالی امداد کی سفارش کی، لیکن وہ نہیں ہو سکا۔
وہ بتاتے ہیں کہ’این آئی ایف ناخواندہ اِنّوویٹرز کو فنڈ کرتی ہے، چونکہ میں خود انجنئیر تھا، لہذا میں اس سکیم کا اہل نہیں تھا۔‘
پروفیسر بٹ اور اُن کے دیگر ماہر دوست، جن مین این آئی ٹی کے ایک اور پروفیسر ڈاکٹر سعد پرویز شامل تھے، نے بلال کی اس ایجاد پر یقین کیا اور ان سے کام جاری رکھنے کو کہا۔
’میری بدقسمتی کہ پروفیسر بٹ کوِڈ کا شکار ہوگئے اور ان کا انتقال ہو گیا۔‘
بعد میں بلال نے انڈیا کے مشہور صنعتی ادارے ’ٹاٹا‘ سے بھی رابطہ کیا، لیکن وہ مایوس ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ٹاٹا نے میری کسی ای میل کا جواب نہیں دیا۔‘
پروفیسر بٹ کے انتقال اور صنعتی اداروں سے مایوس ہونے کے بعد بلال دوبارہ اپنے منصوبے پرکام کرنے لگے۔
’میرے پاس صبر تھا اور میں کنجوس نہیں تھا۔ میں جوتے کپڑے یا فون وغیرہ نہیں بلکہ صرف یہی سامان خریدتا تھا۔ کوچنگ سے پیسہ آتا گیا اور میں اس خواب میں لگاتا گیا۔ ابھی تک میں نے 15 لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم صرف کردی ہے۔
چین سے سامان خریدنے میں مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایک چیز نہیں دیتے۔ کوئی چیز لینا ہو تو ہمیں اس کا پورا پیک خریدنا پڑتا ہے۔ میرے پاس اتنا سامان جمع ہوگیا ہے کہ میں ایک اور کار بنا سکتا ہوں۔‘
ان ساری مشکلات کے باوجود بلال خوش ہیں، کیونکہ مصنوعات کو رجسٹر کرنے والے ادارے نے اُن کی ایجاد کو باقاعدہ پیٹنٹ کرنے کے لیے کام شروع کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے تسلیم کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ میرا آئیڈیا چوری نہیں ہو گا۔ بس اب کچھ دفتری لوازمات ہیں جس کے بعد میری ایجاد مکمل طور پر پیٹنٹ ہو گی۔ پھر مجھے ایک پلیٹ فارم چاہیے ہو گا۔ ایلون مسک کے پاس وسائل بھی ہیں اور پلیٹ فارم بھی، مجھے بھی وہ سب مہیا کیا جائے تو میں بھی انڈیا کا ایلون مسک بن سکتا ہوں۔‘