احسن رمضان: دنیا کے سب سے کم عمر سنوکر چیمپیئن، جو اپنی معاشی حالت کی وجہ سے سنوکر کلب میں رہنے پر مجبور ہیں

’میرے عالمی چیمپیئن بننے سے پہلے اور بعد کے معاشی اور معاشرتی حالات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ مجھے مشورے دیے جا رہے ہیں کہ میں ابھی بہت کم عمر ہوں اس لیے یورپ، امریکہ یا برطانیہ منتقل ہو جاؤں، جہاں پر اچھا مستقبل میرا منتظر ہو گا۔ مواقع بھی موجود ہیں مگر دل نہیں مانتا کہ اپنے ملک، اپنے لاہور اور دوستوں کو چھوڑ کر کسی اور ملک چلا جاؤں۔‘

یہ کہنا ہے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 16 برس کے احسن رمضان کا، جو دنیا کے سب سے کم عمر ورلڈ ایمچر سنوکر چیمپیئن ہیں۔

احسن رمضان نے رواں برس مارچ میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی انٹرنیشنل بلیئرڈز سنوکر فیڈریشن کی عالمی سنوکر چیمپیئن شپ کے فائنل میں اپنے سے کہیں زیادہ تجربہ کار ایران کے کھلاڑی عامر سرکوش کو پانچ کے مقابلے میں چھ فریم سے شکست دی تھی۔

احسن رمضان کہتے ہیں کہ اُن کا خیال تھا کہ عالمی چیمپیئن بننے سے ان کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی اور رہن سہن بہتر ہونے کے علاوہ انھیں مزید کھیلنے اور سیکھنے کے مواقع ملیں گے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

آمدن کا واحد ذریعہ ٹورنامنٹس کی انعامی رقم

احسن رمضان کے والدین وفات پا چکے ہیں اور اُن کی ایک بہن ہے اور وہ اکثر اپنی بہن کے پاس رہنے چلے جاتے ہیں۔

’عالمی چیمپیئن بننے سے پہلے میں جس کلب میں رہتا تھا، اب بھی اس ہی کلب میں رہتا ہوں۔ اس کلب نے مجھے الگ سے ایک کمرہ رہائش کے لیے دیا ہوا ہے، جہاں میں اپنی نیند پوری کرتا ہوں۔‘

احسن رمضان کہتے ہیں کہ چیمپیئن بننے سے پہلے ان کے گزر بسر کا واحد ذریعہ لاہور اور اردگرد کے علاقوں میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹس کے فاتح کے لیے رکھی جانے والی انعامی رقم ہوتی تھی۔

’وہ رقم جیتنے کے لیے میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتا تھا۔ اب بھی میرا گزارہ اس ہی رقم سے ہوتا ہے۔ اس کو جیتنے کے لیے اب بھی سر دھڑ کی بازی لگاتا ہوں۔‘

احسن رمضان

ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ یہ کوئی بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔

’مختلف ٹورنامنٹس کی انعامی رقم مختلف ہوتی ہے اور پھر یہ ضروری بھی نہیں ہوتا کہ میں ہر ٹورنامنٹ کھیلوں اور جیت بھی سکوں۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ اپنی ضروریات کو کنٹرول کر کے پورا کرتا ہوں۔ وہ رقم اتنی نہیں ہوتی جس سے میری ہر ضرورت آسانی سے پوری ہو سکے۔‘

چیمپیئن بننے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا

احسن رمضان کہتے ہیں کہ جس سنوکر کلب میں انھیں رہائش ملی ہوئی ہے، وہاں ہی پر انھیں پریکٹس کی سہولت بھی دستیاب ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرا زیادہ وقت اس ہی سنوکر کلب میں گزرتا ہے۔ ایک کمرے میں رہائش ہے۔ جب مختلف مصروفیات اور پریکٹس کے بعد تھکتا ہوں تو وہاں ہی سو جاتا ہوں۔‘

’سنوکر نہ صرف میرا بلکہ میرے والد کا بھی شوق تھا۔ والد کی وفات کے بعد سنوکر کے شوق کو پورا کرنے کے لیے بڑی محنت کی اور بڑا مشکل وقت گزارا۔‘

احسن رمضان کہتے ہیں کہ خود سوچ لیں کہ کئی سال سے میری رہائش کا ٹھکانہ سنوکر کلب میں واقع کمرہ اور آمدن کا ذریعہ سنوکر کلب کے ٹورنامنٹس کی انعامی رقم ہے۔

احسن رمضان

’بس ہر وقت ذہن میں یہ ہی خیال سوار رہتا تھا کہ اگر ٹونامنٹ نہ کھیلا اور ہار گیا تو پھر یہ ہفتہ اور مہینہ کیسے گزرے گا۔ ہوٹل والے اور دکان والے کو پیسے کہاں سے دوں گا۔‘

احسن کا کہنا تھا کہ انھوں نے چیمپیئن بننے تک کا سفر اسی طرح کے حالات میں کیا۔

’اکثر سنوکر کے چاہنے والے بھی میرے کھیل سے متاثر ہو کر میرے ساتھ تعاون کرتے اور مجھے سراہتے تھے۔ میں نے بھی دھن سوار کر لی تھی کہ مجھے بھی ہر صورت میں ورلڈ چیمپیئن بننا ہے، جس کے لیے میں نے بے انتہا محنت کرنے کے علاوہ قربانی بھی دی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ییرا خیال تھا کہ ورلڈ چیمپئین بننے کے بعد میرے حالات بدل جائیں گے۔‘

’علاقائی سطح پر ٹورنامنٹس جیتنے پر انعامی رقوم مل جاتی ہیں تو اتنا بڑا ٹورنامنٹ جیتنے پر میرا خیال تھا کہ مجھے حکومت کی جانب سے بڑا انعام اور کچھ بہتر سہولتیں مل جائیں گئیں مگر افسوس کہ اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔

احسن رمضان کا کہنا ہے کہ انھیں ٹھیک سے یاد نہیں مگر ورلڈ چیمپئین بننے کے بعد شاید کہا گیا تھا کہ انھیں دس لاکھ روپے اور دیگر سہولتیں دی جائیں گئیں۔

’اسی طرح سابقہ دور حکومت میں قذافی سٹیڈیم لاہور میں میرے اعزاز میں رکھی گئی ایک تقریب کے دوران سابق وزیر فہمیدہ مرزا نے اعلان کیا تھا کہ میرے سارے مسائل کو حل کیا جائے گا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔‘

احسن رمضان

پاکستان میری پہلی ترجیح

احسن رمضان کہتے ہیں کہ انھیں مختلف مشورے مل رہے ہیں کہ وہ برطانیہ، امریکہ یا یورپ کے کسی بھی ملک منتقل ہو جاؤں۔

’میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ مجھے فوراً ویزہ مل جائے گا۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں، جس میں میری کم عمری اور چیمپیئن ہونا شامل ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے کچھ دوستوں کے برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں رابطے بھی ہوئے ہیں، جہاں سے کہا گیا کہ احسن رمضان کو خوش آمدید کہا جائے گا، کھیلنے کے مکمل مواقع فراہم کیے جائیں گے اور کچھ اداروں اور کلبوں نے معاہدے کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔

احسن کا کہنا تھا کہ ’مگر میں سوچتا ہوں کہ پاکستان میرا پیارا ملک ہے اور میں پاکستان کی طرف سے چیمپیئن بنا ہوں۔‘

’مجھے جلدی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ سب لوگ پاکستان سے میری محبت، سنوکر سے میرا جنون اور محنت جانتے ہوں گے۔ وہ ضرور کچھ نہ کچھ کریں گے۔‘

’یہ درخواست ضرور کرتا ہوں کہ سب جانتے ہیں کہ میرے لیے دروازے اور مواقع کھلے ہیں۔ اب یہ وقت ہے کہ میرے حوالے سے آگے بڑھا جائے اور جلد از جلد فیصلے کر کے عملدر آمد کیا جائے۔ ورنہ پتا نہیں میں مزید کتنا عرصہ انتظار کر پاؤں گا اور انتظار کرنا مناسب بھی ہو گا یا نہیں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.