الیکٹرانک ناک: ’کتے کی ناک سے ہزار گنا زیادہ حساس‘ آلہ جو کھانوں کی صنعت میں تبدیلی لا سکتا ہے

انسانی ناک اور اس کی سونگھنے کی صلاحیت یقیناً ایک غیر معمولی چیز ہے۔

ہر ناک میں 400 کے قریب سونگھنے والے ریسیپٹرز ہوتے ہیں جن میں ایک ٹریلین اقسام کی بوؤں کو جانچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

اس بہترین مہارت کو. کسی سائنسی آلے کی شکل دینا یقیناً ایک مشکل چیلنج ہے۔ تاہم مصنوعی ذہانت میں حالیہ جدت کے باعث تازہ ترین الیکٹرانک ناکوں کی سونگھنے. کی رفتار اور درستگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں ایسے جدید سینسرز نصب ہوتے ہیں. جو کسی مخصوص بو کے بارے میں بھی بتا سکتے ہیں۔

ان الیکٹرانک ناکوں کے حامیوں کا کہنا ہے. کہ اس کے باعث فوڈ سیفٹی کی موجود صورتحال میں تبدیلی آ جائے گی۔

ھانوں میں موجود عام لیکن جان لیوا بیکٹیریا میں سیلمونیلا اور ای کولی شامل ہیں۔ پروفیسر راز جیلینیک، جو الیکٹرانک ناک (ای نوز) سینسیفائی کے شریک ڈیویلپر ہیں، کہتے ہیں. کہ ’ان دونوں بیکٹیریا کی اپنی ’الیکٹرانک پرسنالٹی‘ ہے۔‘ اسرائیل کی یونیورسٹی آف النقب میں کیمسٹری کے پروفیسر کہتے ہیں. کہ ’ان کا اپنا الیکٹریکل سگنل بھی ہوتا ہے۔‘

بو سونگھنے

یہ الیکٹرانک ناک جس اسرائیلی کمپنی کی جانب سے بنائے جاتے ہیں. ان میں ایسے الیکٹروڈز ہوتے ہیں. جن پر کاربن کے نینو پارٹیکلز کی تہہ چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ بیکٹیریا سے نکلنے والے وولاٹائل آرگینک کمپاؤنڈز (وی او سی) کی بو سونگھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

ان بیکٹیریا کی مختلف اقسام کے مختلف وی او سی فنگرپرنٹ ہوتے ہیں. اور اس کے نتیجے میں سینسیفائی مشین پر مختلف الیکٹرک سگنل نظر آتے ہیں۔ یہ اس کے بعد ایک مختلف مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر نظام میں سٹور ہوتے ہیں جو. اسے ایک ڈیٹا بیس میں ڈال دیتا ہے۔

اس میں وقت کے ساتھ ایسے تنائج کا اضافہ ہو رہا ہے اور پھر صارفین کو اس بارے میں آگاہ کر دیا جاتا ہے۔

sensifi

سینسیفائی اس سال کے اوائل میں لانچ ہوا تھا اور اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ کھانے کی صنعت میں انفیکشن کے ساتھ جنگ میں اس کے ذریعے برتری حاصل کی جا سکتی ہے۔

فوڈ پروڈیوسرز

اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو مودی پیلید کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات فوڈ پروڈیوسرز کو کھانے کے نمونے ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹری میں بھیجنے ہوتے ہیں اور پھر ان کے نتائج کے لیے کئی روز تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

تاہم اس کے مقابلے میں سینسیفائی کے الیکٹرانک ناک کھانا بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے آن سائٹ بھی کیے جا سکتے ہیں، اور یہ نتائج صرف ایک گھنٹے میں سامنے آ سکتے ہیں۔

تاحال کمپنی نے اپنی مشین کی قیمت کے بارے میں نہیں بتایا ہے لیکن یہ ضرور کہا کہ یہ ’کم قیمت‘ پر فروخت ہوں گی۔ یہ کمپنی اپنے منافع کا زیادہ تر حصہ سبسکرپشن فیس کے ذریعے حاصل کرتی ہے۔

پیلید کا کہنا ہے کہ ’فوڈ انڈسٹری میں ٹیسٹنگ کا نظام گذشتہ 40 سے 50 سالوں سے ایک جیسا ہی رہا ہے۔ اب تک مصنوعی ذہانت اس مارکیٹ کے ٹیسٹنگ کے شعبے پر اثر انداز نہیں ہوا تھا۔‘

فوڈ پوائزننگ دنیا بھر کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امریکہ میں ہی چار کروڑ 80 لاکھ یعنی ہر چھ میں سے ایک شخص ہر سال کھانے کے باعث پیدا ہونے والی بیماری سے متاثر ہوتا ہے۔ ان میں ایک لاکھ 28 ہزار کو ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے جبکہ تین ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔

فوڈ پوائزننگ

برطانیہ میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال فوڈ پوائزننگ. کے 24 لاکھ کیسز سامنے آتے ہیں اور 180 اموات ہوتی ہیں۔

پیلید کہتے ہیں کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ گوشت، مرغی اور مچھلی کے باعث یہ بیماری سب سے زیادہ پھیلتی ہے۔ لیکن اگر آپ امریکہ کی فوڈ انڈسٹری میں گذشتہ پانچ سے دس سالوں کے دوران سب سے زیادہ متاثر کرنے والے چیزوں پر نظر ڈالیں تو اس کی وجہ سلاد پتا ہوتا ہے۔

’جتنا زیادہ فوڈ انڈسٹری کو انڈسٹرلائز کیا جائے گا. اتنا زیادہ مرض پھیلانے والے جرثومے اسے متاثر کریں گے۔‘

جرمنی کی کمپنی این ٹی ٹی ڈیٹا بزنس سولوشنز نے اپنے الیکٹرانک. ناک کے اے آئی کو ٹریننگ دینے کے لیے. کافی کا استعمال کیا ہے۔

ایک ٹسیٹ کے دوران اس سے منسلک تکنیکی نمائندوں نے تین روز تک اے آئی سینسرز کے پاس کافی پاوڈر ڈالا۔ مصنوئی ذہانت کو پھر یہ بتانا تھا کہ یہ کافی اچھی ہے، بری ہے (اس میں ادرک ڈالی گئی ہے) یا یہ کافی نہیں ہے۔

اس کمپنی کے انوویشن مینیجر ایڈرین کوسٹرز کا کہنا ہے. کہ ’کوئی بھی بو صرف گیس نہیں ہوتی، یہ گیسز کامجموعہ ہوتی ہے اور اکثر اوقات اس کی بو میں تھوڑا بہت ہی فرق ہوتا ہے۔‘

این ٹی ٹی کے سینسرز ایک تھری ڈی پرنٹڈ پلاسٹک ماڈل انسانی ناک میں فٹ فٹ کیے گئے ہیں۔ وہ اس کے اے آئی کی ٹریننگ کافی اور دیگر کھانے کی اشیا سے کر کے اسے یہ سکھا رہا ہے. کہ تازہ اور اچھی حالت میں چیزوں کی بو کیسی ہونی چاہیے، یہ کمپنی کے مطابق ’کسی بھی بو کے لیے ایک ریفرنس کا کام دے گا۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.