ہاتھوں کی پیوند کاری: ’مجھے یہ خلائی دور کی بات لگی‘

جب سٹیون گیلیگر کو پہلی بار مشورہ دیا گیا کہ ان کے دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری ہو سکتی ہے تو وہ ہنس دیے تھے۔

لیکن صرف پانچ ہی ماہ بعد انھوں نے ایک ایسی سرجری کروانے کا خطرہ مول لیا جو ناکام ہوتی تو ان کے ہاتھ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ سرجری پہلی بار ہونے جا رہی تھی۔ اب وہ اپنی تکلیف سے نجات پا چکے ہیں اور ایک نئی زندگی جی رہے ہیں۔

سٹیون کو ایسی سرجری کی ضرورت کیوں پڑی؟

48 سالہ سٹیون تین بچوں کے والد ہیں۔ ان کو 13 سال قبل اپنے گالوں اور ناک پر ایک غیر معمولی خارش محسوس ہوئی جس کے ساتھ ہی ان کے دائیں بازو میں درد شروع ہوا۔

ڈاکٹرز کا پہلے خیال تھا کہ ان کو لوپس بیماری ہوئی ہے۔ بعد میں کارپل ٹنل سنڈروم کی تشخیص کی گئی اور پھر ان کا آپریشن بھی ہوا۔

لیکن جب ان کے دونوں بازوؤں میں درد دوبارہ شروع ہوا تو ان کو ایک اور ماہر ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ ملا جس نے سکلیروڈرما نامی ایک ایسی آٹو امیون بیماری کی تشخیص کی جس میں انسان کی جلد اور اندرونی اعضا متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ان کے کیس میں اس بیماری نے ناک، منہ اور ہاتھوں کو متاثر کیا۔ سات سال قبل ان کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑنا شروع ہو گئیں حتی کہ انھوں نے ایک مٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ ان کو ناقابل برداشت درد کا سامنا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے ہاتھ بند ہونا شروع ہو گئے اور ایک ایسا وقت آیا جب میرے ہاتھ دو بند مٹھیوں کی طرح ہو چکے تھے، بلکل ناقابل استعمال۔‘

’میں اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ کچھ اٹھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔میں کچھ پکڑ نہیں سکتا تھا۔ کپڑے پہننے جیسا کام بھی بہت مشکل ہو گیا تھا۔‘

سٹیون کا تعلق برطانیہ کے شمالی آئرشائر کے ڈریغورن سے ہے اور وہ چھتوں پر ٹائلز لگانے کا کام کرتے تھے۔ لیکن اس بیماری کے بعد یہ بھی ممکن نہیں رہا تھا۔

سٹیون کو گلاسگو کے کنسلٹنٹ پلاسٹک اور ہاتھوں کے سرجن پروفیسر انڈریو ہارٹ کے پاس بھیجا گیا جنھوں نے سب سے پہلے ان کو دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری کا مشورہ دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت تو میں ہنس پڑا تھا اور میں نے سوچا کہ یہ تو خلائی دور کی بات لگتی ہے۔‘

پروفیسر ہارٹ سے بات چیت کے بعد سٹیون نے برطانیہ کے لیڈز ٹیچنگ ہسپتال کے کنسلٹنٹ پلاسٹک سرجن پروفیسر سائمن سے بھی مشورہ کیا۔ پروفیسر سائمن نے برطانیہ کی طبی تاریخ میں پہلی بار 2016 میں کسی کے دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری کا آپریشن کیا تھا۔

سٹیون

پروفیسر ہارٹ اور پروفیسر سائمن، دونوں ہی نے سٹیون کو اس آپریشن کے ممکنہ خطرات سے بھی آگاہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان دونوں نے بہت سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور کھل کر مجھے بتایا کہ کیا ہو سکتا ہے، جیسے میں دونوں ہاتھ مکمل طور پر کھو بھی سکتا ہوں۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایسا کم کم ہوتا ہے، لیکن پھر بھی یہ ممکنات میں سے ایک ضرور ہے۔‘

’میں نے اپنی بیوی سے بات کی اور ہم نے فیصلہ کیا کہ میں ویسے بھی اپنے ہاتھ کھو سکتا ہوں تو پھر کیوں نا یہ خطرہ مول لیا جائے تو میں نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ میں یہ آپریشن کروانا چاہتا ہوں۔‘

سٹیون، جن کی تین بیٹیوں کی عمریں 12، 24 اور 27 سال ہیں، کو سب سے پہلے ایک نفسیاتی ٹیسٹ سے گزرنا پڑا جس میں جانچا گیا کہ وہ اس پیوند کاری کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں یا نہیں۔

یہ ہاتھ کمال کے ہیں

سٹیون غالبا دنیا کے پہلے شخص ہیں جن کو لاحق بیماری کی وجہ سے دونوں ہاتھوں کی پیوند کاری کی گئی۔ اس آپریشن میں 30 ماہرین کی ٹیم نے حصہ لیا جو دمسبر 2021 میں 12 گھنٹے تک جاری رہا۔ اس سے قبل ان کے لیے موزوں ڈونر (عطیہ کرنے والا) تلاش کیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپریشن کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو یہ بہت ناقابل یقین تھا۔‘

’یہ ہاتھ کمال کے ہیں۔ سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا۔ میری آّنکھ کھلنے کے بعد سے ہی میں ان ہاتھوں کو ہلا سکتا تھا۔‘

آپریشن کے بعد لیڈز جنرل انفرمری میں چار ہفتے گزارنے پر سٹیون کو گھر بھیج دیا گیا۔ اب ان کو باقاعدگی سے گلاسگو جانا پڑتا ہے جہاں ان کی فزیوتھراپی کی جاتی ہے۔

اب بھی بٹن بند کرنے جیسے کام، جن کے لیے دونوں ہاتھ درکار ہوتے ہیں، سٹیون کے لیے کچھ مشکل ہیں لیکن ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ وہ اپنے کتے کو ہاتھوں سے پیار کر سکتے ہیں، اسے سہلا سکتے ہیں، پانی کا گلاس بھر سکتے ہیں۔

سٹیون گیلیگر

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے تو ایک نئی زندگی مل گئی۔‘

’میرے لیے اب بھی بہت سے کام مشکل ہیں لیکن ہر ہفتے بہتری آ رہی ہے اور آہستہ آہستہ ہر چیز بہتر ہو رہی ہے۔‘

’بڑا مسئلہ درد کا ہے۔ آپریشن سے پہلے یہ ناقابل برداشت تھا۔ مجھے درد کی اتنی دوایاں کھانی پڑتی تھیں کہ آپ یقین نہیں کریں گے۔ اب مجھے بلکل کسی قسم کا درد نہیں ہے۔‘

پروفیسر سائمن کہتے ہیں کہ ہاتھوں کی پیوند کاری گردے یا کسی اور جسمانی حصے کی پیوند کاری سے بہت مختلف ہے۔

’ہاتھ ہم روزانہ دیکھتے ہیں اور بہت سے کاموں کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔‘

’اسی لیے ہم پہلے ہر مریض کا نفسیاتی معائنہ کرتے ہیں کہ کیا وہ ذہنی طور پر پیوند کاری کے بعد کی زندگی کے لیے تیار ہے یا نہیں اور کیا وہ ان خطرات کے لیے تیار ہے کہ اس کا جسم ٹرانسپلانٹ کیے گئے ہاتھ کو قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔‘

سٹیون کے لیے تو اس آپریشن نے سب کچھ بدل دیا۔ اب ان کو امید ہے کہ ان کے ہاتھ کسی حد تک بہتر ہوئے تو وہ کسی قسم کا کام بھی کر پائیں گے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.