اہلیہ سمیت اسلام قبول کرنے والے امریکی مصنف شان کنگ کون ہیں؟

سابق امریکی پادری، معروف مصنف اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے کارکن جیفری شان کنگ اور ان کی اہلیہ رائے کنگ نے اسلام قبول کر لیا ہے۔

اس خبر کا اعلان شان کنگ کے فیس بک پیج پر کیا گیا ہے جس سے منسلک ویڈیو میں یہ جوڑا امام اور شان کے دوست شیخ عمر کے ساتھ کلمہ پڑھتا نظر آ رہا ہے۔

اس موقع پر شان نے فلسطینی رومال کفایہ پہن رکھا ہے. جبکہ ان کی اہلیہ عبایا اور سکارف میں نظر آ رہی ہیں۔

انھوں نے فیس بک پر لکھا ’امریکہ میں سب کو شب بخیر اور باقی دنیا کو صبح بخیر۔ میں اور میری اہلیہ ابھی مسجد میں شام کی نماز پڑھ کر ڈیلس میں اپنے گھر پہنچے ہیں۔ ہم نے رمضان کا آغاز اسلام قبول کر کے کیا ہے اور ایک ساتھ کلمہ پڑھا ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک خوبصورت، بامعنی دن تھا جسے ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔‘

45 سالہ شان کنگ کی وجہ شہرت ایک ایسے شخص کی ہے. جو سوشل میڈیا پر نسل پرستی کے خلاف مہم سے لے کر افریقی نژاد امریکیوں (خاص کر بلیک لائیوز میٹر تحریک) اور مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور اسرائیل کی جوابی بمباری کے بعد وہ ہر پلیٹ فارم پر غزہ کے شہریوں کی حمایت میں آواز اٹھاتے اور جنگ بندی کا مطالبہ کرتے نظر آئے ہیں۔

شان کنگ کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت کے باعث دسمبر میں انسٹاگرام نے ان کے ساٹھ لاکھ سے زائد فالوورز والے اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ میٹا نے کنگ کے اکاؤنٹ پر کیوں پابندی عائد کی تاہم اب تک ان کا اکاؤنٹ بحال نہیں ہو سکا ہے۔

shaunking

’مصائب اور تکالیف میں گھرے غزہ والوں کے ایمان نے میرا دل کھول دیا ہے‘

اسلام قبول کرنے کے بعد مسجد میں موجود لوگوں سے بات کرتے ہوئے. شان کنگ نے امام شیخ عمر کے ساتھ اپنی 10 سالہ دوستی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اتنے برس میں ایک مرتبہ بھی عمر نے اسلام قبول کرنے کے لیے مجھ پر زور نہیں ڈالا تاہم اس نے مجھے بتایا کہ میں آٹھ سال سے یہ دعا کر رہا ہوں۔

شان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ میرے اور میری اہلیہ کے لیے بہت آسان رہا ہے. اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کیا. کیونکہ میری اہلیہ نے خود اپنے دل میں اس چیز کو محسوس کیا۔‘

انھوں نے اپنے فیصلے کا سہرا ’ان مصائب، درد اور صدمے کو دیا. جو انھوں نے گذشتہ چھ ماہ کے دوران غزہ میں. دیکھے ہیں۔‘

شان کنگ نے کہا کہ ’ان لوگوں (غزہ والوں). کو دنیا کی سب سے خطرناک، تکلیف دہ جگہ پر جہاں ان کے پاس اپنے پیاروں کی لاشوں اور ملبے سے باقیات نکالنے کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔۔۔ مگر اس کے باوجود وہ زندگی کا معنی اور مقصد ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔ اس سب نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔‘

کنگ نے کہا کہ ’ان کے ایمان اور اسلام کے لیے. ان کی عقیدت نے نہ صرف میرا دل کھول دیا ہے. بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کے دلوں کو کھول دیا ہے۔‘

شان کنگ کون ہیں اور غزہ کی حمایت میں آواز کیوں اٹھا رہے ہیں؟

شان کنگ 17 ستمبر 1979 کو امریکہ کی ریاست کینٹکی کی فرینکلن کاؤنٹی میں پیدا ہوئے۔

2015 میں لکھے گئے ایک مضمون میں شان کنگ نے دعویٰ کیا کہ کینٹکی میں رہائش کے دوران وہ نسل پرستی اور نفرت انگیز جرائم کا شکار رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 1995 میں ہائی سکول میں تعلیم کے دوران درجن بھر لڑکوں نے ان پر حملہ کیا. اور شدید مار پیٹ کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دن ان کی زندگی کا محور بدل گیا۔

وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جب وہ گھر پر صحت یاب ہو رہے تھے اسلام اس دوران نسل پرست سفید فام لڑکے انھیں مارنے کے لیے گھر تک آئے۔

شان کا کہنا ہے کہ ان چوٹوں کی وجہ سے انھیں ریڑھ کی ہڈی کی تین سرجریاں کروانا پڑیں. جن کے باعث وہ دو سال تک سکول نہیں جا سکے۔

کنگ ان حملوں کو نسلی طور پر کیے گئے نفرت انگیز جرائم کہتے ہیں. اور اسی باعث وہ باقاعدگی سے اس نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جس کا تجربہ انھوں نے خود کینٹکی میں ایک غیر سفید فام بچے کے طور پر کیا تھا۔

’فیس بک پادری‘

شان کنگ

شان کے مطابق اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے تقریباً ایک سال کے لیے. ہائی سکول میں شہریات کی تعلیم دی اور پھر اٹلانٹا کے نوعمروں کو انصاف دلوانے والے مرکز میں بھی کام کیا۔

سنہ 2008 میں انھوں نے بطور پادری اٹلانٹا. میں گریس کرسچن چرچ کے نام سے ایک چرچ قائم کیا۔

پادری بننے کی وجوہات کے متعلق کنگ کا کہنا ہے. کہ جب وہ ہائی سکول میں تھے. تو تب سے پادری بننے کی خواہش رکھتے تھے۔

ہائی سکول کے دنوں میں جب کنگ خود پر ہونے والے حملے کے بعد زخموں سے صحت یاب ہو رہے تھے تو ان دنوں ان کے دوست کے والد، جو ایک پادری تھے، باقاعدگی سے ان سے ملنے جاتے تھے۔

کنگ بنا باپ کے پلے بڑھے تھے اور اس پادری کی شخصیت نے انھیں بہت متاثر کیا اور وہ اس جیسا بننا چاہتے تھے۔ ان دنوں کنگ نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا اور انھیں عیسائی بنانے کی رسومات بھی ادا کی گئیں۔

گریس کرسچن چرچ میں نئے لوگوں کو لانے کے لیے کنگ نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا. اور یوں وہ ’فیس بک پادری‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ تاہم صرف چار سال بعد ’ذاتی دباؤ اور مایوسی‘ کی وجہ سے انھوں نے 2012 میں چرچ سے استعفیٰ دے دیا۔

حقوقِ انسانی کے لیے آواز اٹھانا

کنگ نے ایک نسل پرستی کا شکار شخص کے طور پر اپنے تجربات کے بارے میں بڑے پیمانے پر لکھا ہے اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بلیک لائیوز میٹر تحریک اور امریکہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ تعصب اور شوٹنگ کے واقعات پر بھی کھل کر آواز اٹھائی ہے۔

کنگ کا کہنا ہے کہ وہ جن تجربات سے گزرے ہیں. ان کے باعث انھوں نے اپنی زندگی انسانی حقوق خاص. طور پر بلیک لائیوز میٹر تحریک کے لیے وقف کر دی ہے۔

اور شان نے یہ کام اپنی تحریروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کیا. جن میں وہ انسانی حقوق، نسلی تعصب، پولیس کی بربریت، بڑے پیمانے پر قید اور قانون نافذ کرنے والی بدانتظامی پرتوجہ دلاتے نظر آتے ہیں۔

انھوں نے کئی اخبارات کے لیے مضامین لکھے ہیں. اور ایسے ہی ایک مضمون میں کنگ نے سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن کی ہلاکت کا تجزیہ کیا، اور اس دعوے کے خلاف دلیل دی. کہ پولیس افسر ڈیرن ولسن کی جان کو خطرہ تھا۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.