ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ: فیصلہ آج متوقع، پاکستان پرامید مگر خدشات برقرار

ب ایک بار پھر سال کا وہ وقت آ چکا ہے جب پاکستان کی کارکردگی کی بنیاد پر اسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے پلینری اجلاس میں گرے لسٹ سے نکالنے یا مزید رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

اس بار وزیرِ مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر جو پاکستان کی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو آرڈینیشن کمیٹی کی سربراہ ہیں، جرمنی کے شہر برلِن میں پاکستانی وفد کی سربراہی کر رہی ہیں۔ انھوں نے موجودہ اور سابقہ ایف اے ٹی ایف کے نمائندگان اور سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں۔

ایف اے ٹی ایف کے اس پلینری اجلاس کی میزبانی اس بار برلِن کر رہا ہے، جو 13 جون سے 17 جون (یعنی آج) تک جاری رہے گا۔

اس پلینری اجلاس میں پاکستان کی سنہ 2018 اور 2021 کی کارکردگی پر بحث ہو گی اور ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا جبکہ پلینری اجلاس میں انٹرنیشنل کوآپریشن ریویو گروپ یعنی آئی سی آر جی کی سفارشات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سنہ 2018 میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنایا گیا تھا جس کے بعد سے پاکستان میں سرمایہ لگانے والے ممالک کی تعداد قدرے کم ہو گئی تھی۔

مارچ سنہ 2022 میں ہونے والے ریویو میں ٹیررسٹ فنانسنگ کے ادارے نے پاکستان کو گرے لسٹ میں باقی رکھتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ’سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے۔‘

پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی سنہ 2018 میں دی گئی 27 میں سے 26 سفارشات مکمل کر چکا ہے جبکہ سنہ 2021 میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی جانب سے دیے گئے سات نکات میں سے چھ کو قبل از وقت مکمل کر چکا ہے۔

ان دو رہ جانے والی سفارشات میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف عدالتی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات متعارف کروانا ہے۔

واضح رہے کہ سنہ 2020 میں منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان نے قانون میں ترمیم بھی کی تھی تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے لیکن وفاقی حکومت کے ترجمان کے مطابق سنہ 2021 کے ریویو میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ’دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں پیشرفت کی مزید مثالیں سامنے لانے کو کہا گیا تھا۔‘

پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال حکومتی ترجمان قدرے بہتر جائزے کے لیے پُر امید نظر آ رہے ہیں۔

اکستان کی موجودہ وفاقی حکومت سے منسلک ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک ملنے والی اطلاعات یہی بتا رہی ہیں کہ اس بار معاملہ پاکستان کے حق میں جائے گا ’لیکن پاکستان کو اگر گرے لسٹ سے نکالا جاتا ہے تب بھی معاملات طے ہونے میں وقت درکار ہو گا اور سات سے آٹھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ گرے لسٹ سے نکلنے کی صورت میں ’ایف اے ٹی ایف ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی تاکہ خود تسلی کر سکیں کہ ان کی سفارشات پر کام مکمل ہو چکا ہے۔‘

ترجمان نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کو رہ جانے والی دو سفارشات میں قانون میں ترمیم کے ساتھ ساتھ اس کے نفاذ سے متعلق خدشات ہیں، جن کا اظہار وہ کئی بار کر چکے ہیں۔

وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان نے اکثر سفارشات کی تکمیل کر لی ہے لیکن خود کو مکمل طور پر گرے لسٹ سے باہر نکالنے میں ابھی کامیاب نہیں ہوا ہے۔

‘اگر اس بار پاکستان گرے لسٹ سے نکل جاتا ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہو گی کہ اتنے سال کی مانیٹرنگ سے آخر کار باہر نکل آئے۔ سرمایہ کاروں اور دنیا کے لیے ایک مثبت بات ہو گی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ لگا سکیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بھی مواقع پیدا ہو سکیں گے۔


دو رہ جانے والی سفارشات میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف عدالتی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات متعارف کروانا ہے

تاہم وفاقی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ’حالانکہ معاملات پاکستان کے حق میں جاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اس اجلاس میں دیگر ممالک بھی ہوتے ہیں جن کی رضامندی اور تسلی بھی معنی خیز ہوتی ہے۔‘

اس کی ایک وجہ سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان بھی ہے جس میں انھوں نے پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا پر الزام عائد کیا تھا۔ سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود نے کہا تھا کہ انڈیا ایف اے ٹی ایف کے فورم کو ’سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔‘

سابق وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ایف اے ٹی ایف ’ایک تکنیکی فورم ہے جسے سیاسی معاملات کو نمٹانے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔‘

یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے انڈین نژاد سنگاپورین ٹی راجہ کمار کو ادارے کے اگلے صدر کے طور پر دو سال کے لیے منتخب کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

رواں سال مارچ میں اور اس سے پہلے 2021 میں منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے ایشیا پیسیفک گروپ نے پاکستان کو اپنی دوسری فالو اپ رپورٹ میں مزید نگرانی کی فہرست میں شامل کیا تھا لیکن اس کے باوجود ادارہ گاہے گاہے پاکستان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہا ہے۔

ادارے کی جانب سے پاکستان کو یہ باور کروایا جا چکا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کے خلاف قانون سازی کے ذریعے ہی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔

سنہ 2021 کی رپورٹ کے مطابق ادارے نے فروری 2021 میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تین اہم ترین سفارشات کی تکمیل کرے جن میں دہشتگردوں کو سزا، ان معاملات کی قانونی چارہ جوئی اور مالی معاونت پر پابندیاں شامل ہیں۔

ان تمام سفارشات میں ایک نکتہ رہ گیا تھا جس میں ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردوں کے خلاف قانون سازی اور ان کو ملنے والی مالی معاونت کی تفتیش کرنے پر بھی زور دیا تھا۔

اسی سلسلے میں ادارہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مالی معاونت پر پابندی کے قانونی اطلاق کا ثبوت بھی مانگتا رہا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.