ایمازون جنگل میں کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہنے والا لاپتہ شخص 31 دن بعد مل گیا

ایمازون
ايمازون جنگل ميں 31 دن

بولیویا کے ایک شخص نے بتایا ہے کہ کس طرح وہ ایمازون کے جنگل میں لاپتہ ہونے کے بعد 31 دن تک زندہ رہنے میں کامیاب رہے۔

30 برس کے جوناتھن اکوسٹا شمالی بولیویا میں شکار کے دوران اپنے چار دوستوں سے جدا ہوئے اور پھر لاپتہ ہو گئے تھے۔

اُن کا کہنا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے 31 دن تک انھوں نے اپنے جوتوں میں جمع ہونے والا بارش کا پانی پیا اور کھانے میں کیڑے مکوڑے کھاتے رہے۔ اور اس دوران وہ جنگلی جانوروں جیسا کہ چیتے اور سورؤں سے بھی چھپتے رہے۔

جوناتھن اکوسٹا کے لاپتہ ہونے کے ایک ماہ بعد بالآخر مقامی افراد اور دوستوں پر مشتمل ایک ٹیم اُن کی تلاش میں نکلی اور انھیں ڈھونڈ نکالا۔

تلاش

اپنے آنسو پونچھتے ہوئے جوناتھن نے کہا کہ ’یہ ناقابل یقین ہے، میں یقین نہیں کر سکتا۔ کہ لوگوں نے اتنی دیر تک میری تلاش جاری رکھی۔‘

انھوں نے یونیٹل ٹی وی کو بتایا کہ ’اس عرصے کے دوران میں نے کیڑے مکوڑے کھائے۔ آپ یقین نہیں کریں گے۔ کہ مجھے اس سارے عرصے میں زندہ رہنے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا۔‘

زندہ رہنے کے لیے ان کا انحصار جنگلی پھلوں اور کیڑوں مکوڑوں پر رہا۔

جوناتھن کے مطابق ’میں خدا کا بے حد شکر ادا کرتا ہوں۔ کیونکہ اس نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔‘

ان کے اہل خانہ نے کہا۔ کہ وہ ابھی بھی تمام تفصیلات جمع کر رہے ہیں کہ جوناتھن کیسے کھو گئے تھے اور وہ اس عرصے کے دوران کیسے زندہ رہنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم وہ آہستہ آہستہ ان سے پوچھیں گے کیونکہ وہ ابھی اس تلخ تجربے کے بعد نفسیاتی مسائل سے گزر رہے ہیں۔

جنگل میں گزارے گئے اس وقت میں جوناتھن اکوسٹا کا وزن 17 کلوگرام کم ہو گیا تھا۔ جب وہ ملے تو ان کا ٹخنہ ٹوٹا ہوا تھا اور ان کے جسم میں پانی کی کمی واقع ہو چکی تھی۔ لیکن ان لوگوں کے مطابق جنھوں نے انھیں تلاش کیا جوناتھن اس تمام مشکلات کے باوجود لنگڑا کر خود سے چل رہے تھے۔

جوناتھن کے چھوٹے بھائی ہوراشیو اکوسٹا نے بولیویا کے ایک اخبار کو بتایا کہ ’میرے بھائی نے ہمیں بتایا کہ جب چوتھے دن اس کا ٹخنہ ٹوٹ گیا تو اس کے بعد انھیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔‘

ہوراشیو اکوسٹا نے مزید کہا کہ ان کے بھائی کے پاس اپنی ’شاٹ گن‘ میں صرف ایک کارتوس تھا اور وہ چل نہیں سکتے تھے اور انھوں نے یہی سوچا کہ اب کوئی انھیں تلاش نہیں کر رہا ہو گا۔

جان کے لالے

جوناتھن اکوسٹا جب گم ہو گئے تو ان کے پاس کوئی روشنی کا دیا یا ٹارچ نہیں تھی۔ اور انھیں پینے کے لیے بارش کا پانی اپنے جوتوں میں ذخیرہ کرنا پڑا۔

انھوں نے اپنے رشتہ داروں کو یہ بھی بتایا کہ ان کا سامنا جنگلی جانوروں سے بھی ہوا ہے۔ جس میں ایک ’چیتا‘ بھی تھا۔

اس کے چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ جوناتھن نے جنوبی امریکہ کے بارانی جنگلات میں پائے جانے والے ’پکیریز‘، سور نما جنگلی جانوروں کے ریوڑ کو ڈرانے کے لیے اپنا آخری کارتوس استعمال کیا تھا۔

لاپتہ ہونے کے 31 دن کے بعد انھوں نے تقریباً 300 میٹر (980 فٹ) دور ایک سرچ ٹیم کو دیکھا اور کانٹے دار جھاڑیوں میں سے ان کی طرف لنگڑاتے ہوئے چلنا شروع ہوئے۔ اور اس دوران وہ انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے چلاتے رہے۔

ہوراشیو اکوسٹا کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو چار مقامی افراد نے تلاش کیا۔ ان کے مطابق ’ایک آدمی دوڑتا ہوا ہماری طرف آیا اور ہمیں بتایا کہ اسے میرا بھائی مل گیا ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے۔‘

ان کے مطابق ’جوناتھن نے اس مصیبت کے بعد شکار ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

انھوں نے اپنے گٹار کے شیدائی بھائی کے بارے میں بتایا۔ کہ ’وہ خدا کی تعریف کے لیے موسیقی بجائے گا۔ انھوں نے خدا سے وعدہ کیا تھا، اور مجھے لگتا ہے۔ کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔‘

دریں اثنا پولیس نے کہا کہ وہ زندہ بچ جانے والے کے چار دوستوں سے پوچھ گچھ کریں گے۔ کہ وہ ان سے الگ کیسے ہوئے۔

3 Comments

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.