خاتون پولیس افسر کو دورانِ مشق زیرِ جامہ تک برہنہ کرنے کے کیس میں 30 ہزار پاؤنڈ معاوضہ ادا کر دیا گیا

برطانیہ کی ایک عدالت کے حکم پر ایک خاتون پولیس افسر کو ٹریننگ کی مشق کے دوران زیر جامہ تک برہنہ کرنے کے کیس میں 30 ہزار پاؤنڈ معاوضہ ادا کر دیا گیا ہے، جس کے بعد متاثرہ خاتون کا کہنا ہے. کہ انھیں ’نجات‘ مل گئی ہے۔

ریبیکا کلام نے ایک ٹریبیونل میں محکمہ پولیس پر جنسی اور توہین آمیز زبان استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔ مقدمہ چلا اور انھوں نے یہ جیت لیا۔

بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ریبیکا کلام نے کہا. کہ انھیں ’دکھ‘ ہے کہ جو ہراسانی اور امتیازی سلوک ان کے ساتھ ہوا وہ صرف ان تک محدود نہیں تھا۔

انھوں نے کہا ’ویسٹ مڈلینڈز پولیس نے اپنی بہت سی ناکامیوں کی مکمل ذمہ داری قبول کی ہے، مگر اس کے باوجود ان کی خواتین افسران کے لیے کوئی واضح تحفظ یا ثقافتی تبدیلی نہیں۔‘

ریبیکا کلام سابق تفتیشی انسپیکٹر ہیں اور وہ ستمبر 2008 میں پولیس میں بھرتی ہوئی تھیں۔ انھوں نے 2012 میں فائر آرمز آپریشن یونٹ میں شمولیت حاصل کی اور پھر طبی بنیادوں پر جولائی 2023 میں ریٹائر ہوئیں۔

ٹریبونل کو بتایا گیا کہ مارچ 2012 میں ایک تربیتی. مشق کے دوران ان کے کپڑے پھاڑے گئے. تاکہ انھیں ابتدائی طبی امداد دی جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس مشق کے دوران ’انتہائی تکلیف‘ محسوس کر رہی تھیں۔ مشق میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ ان کی بائیں چھاتی کے اوپر والے حصے میں گولی لگی ہے. اور مشق میں حصہ لینے والے افسروں کو اس کا ابتدائی علاج کرنا تھا۔

ریبیکا کلام

’پوسٹر گرل‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایک اور واقعے میں جب وہ ورزش کر رہی تھیں .تو اس وقت ایک مرد افسر نے ان کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ کر نیچے کی طرف زور لگاتے ہوئے کہا کہ چھاتی ہونے ’کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پش اپس نہیں کر سکتیں۔‘

ٹربیونل کو یہ بھی بتایا گیا کہ مرد افسروں کو ’آسانی سے چلنے والی‘ بندوق اور باڈی آرمر سمیت جو حفاظتی آلات دیے جاتے تھے پولیس، ریبیکا کلام کو وہ مہیا کرنے میں ناکام رہی۔

ٹربیونل کو یہ بھی بتایا گیا کہ اپریل 2016 میں جب ریبیکا پانچ ماہ کی حاملہ تھیں. تو اس وقت انھیں فائرآرمز یونٹ کی ’پوسٹر گرل‘ بنا دیا گیا اور ان کا فوٹو شوٹ کروایا گیا۔

گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے فیصلے میں جج کرسٹوفر کیمپ نے کہا کہ ریبیکا کو ’نفسیاتی چوٹیں‘ پہنچیں جس کی وجہ سے وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہیں۔

جج نے کہا کہ ان غلطیوں کی وجہ سے ایک نوجوان عورت ’مستقبل قریب کے لیے. دوبارہ پولیس کے لیے کام کرنے سے قاصر ہیں۔‘

ریبیکا کلام نے بی بی سی کو بتایا کہ مینیجرز، سینیئر لیڈروں اور غلط نظم و ضبط کے عمل نے لوگوں کو مایوس کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اپنے گواہوں اور ساتھ دینے والوں کی جرات کو سلام کرتی ہوں.‘ جن کے ایسا کرنے سے ان کے کریئر کو خطرہ تھا۔

پولیس

امتیازی سلوک

ریبیکا کلام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جاتا. تو وہ آج پولیس سپریٹنڈنٹ کے عہدے پر ہوتیں۔

عدالت نے ریبیکا کالام کے. جذبات کو ٹھیس پہنچنے کے معاملے پر بطور معاوضہ انھیں 30 ہزار پاؤنڈ دینے کا فیصلہ دیا ہے۔

اس سے قبل ریبیکا کو حفاظتی سامان نہ ملنے. کی وجہ سے ملنے. والی جسمانی چوٹوں پر تین ہزار ڈالر. دینے کا فیصلہ دیا تھا۔

اس وقت اس یونٹ میں 250 مرد تھے جبکہ ریبیکا کلام سات خاتوں فائرآرمز پولیس افسروں میں سے ایک تھیں۔

ڈپٹی چیف کانسٹیبل سکاٹ گرین نے کہا. کہ انھیں ’افسوس ہے کہ ریبیکا کلام کے اٹھائے گئے سنگین خدشات‘ کو دور کرنے کے لیے جلد مزید اقدام نہیں لیے گئے۔

انھوں نے کہا کہ فائرآرمز یونٹ کے عملے نے کام کے ماحول اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کی اور گزشتہ دو سال میں ’نمایاں پیشرفت‘ ہوئی ہے، تمام خواتین افسران کو مخصوص یونیفارم اور آلات جاری کیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا ’پولیس کے شعبے میں خاتون سے نفرت، امتیازی سلوک یا بے. عزتی کی کوئی جگہ نہیں اور ہم اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ معیارات کو قائم کرنے. اور ان کو تقویت دینے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.