مہنگا پٹرول، شدید گرمی، سیکیورٹی کے مسائل: اسلام آباد میں اب قیدی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی سماعت کا حصہ بن سکیں گے

ایسے قیدی جن کے مقدمات میں حتمی چالان عدالت میں پیش نہیں ہوا ہے اب وہ ویڈیو لنک کے ذریعے بھی عدالتی سماعت کا حصہ بن سکیں گے۔ پہلے مرحلے پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایسے قیدیوں کے مقدمات کی سماعت اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فیصلہ اسلام آباد میں واقع بخشی خانہ کی ابتر صورت حال، موسم کی شدت، پیٹرول کی بچت اور سیکیورٹی جیسے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

پہلے مرحلے میں اس فیصلے کا اطلاق ایسے قیدیوں پر ہوگا جن کے ٹرائل اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور جن کے حمتی چالان بھی پیش نہیں کیے گئے اور محض ان کو حاضری کے لیے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ اکبر ناصر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ضمن میں اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کے ججز، جن میں سیشن ججز بھی شامل ہیں، کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی تھی، جس میں یہ امور زیربحث آئے۔

انھوں نے کہا کہ راولپنڈی میں واقعہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹینڈنٹ کو کہا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں جیل کے اندر 4/4 کا بوتھ بنائیں، جہاں پر انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو اور وہاں پر ایسے قیدیوں کو حاضری کے لیے پیش کیا جا سکے۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق جس وقت ایسے قیدیوں کو ویڈیو لنک کے ذریعے متعقلہ عدالت کے جج کے سامنے پیش کیا جائے گا تو اس وقت کوئی عدالتی اہلکار جیل کے اندر موجود ہوگا۔

اس اجلاس میں اسلام آباد پولیس کے شعبہ تفتیش کے سربراہ کو بھی ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ وہ زیر تفتیش مقدمات کا چالان 18 دنوں کے اندر اندر متعلقہ عدالت میں پیش کریں تاکہ زیر التوا مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔

جیل

اسلام آباد میں کوئی جیل نہیں

اسلام آباد پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو اڈیالہ جیل سے لانے اور لے جانے میں سیکیورٹی کے خدشات کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جرائم پیشہ عناصر اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے قیدیوں کی وین پر حملہ آور بھی ہو سکتے ہیں۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے بخشی خانے تک کا فاصلہ 30 کلو میٹر سے زیادہ ہے جبکہ اسلام آباد میں ابھی تک کوئی جیل موجود نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں جیل کی تعمیر کا معاملہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوا تھا اور اس کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر آئی میں جگہ بھی مختص کی گئی تھی۔ تاہم ابھی اس منصوبے پر کام سست روی کا شکار ہے۔

اسلام آباد کو جب ضلعے کا درجہ دیا گیا اور وہاں پر ضلعی عدالتیں قائم کی گئیں تو ملزمان کو عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے بخشی خانہ بنایا گیا جس میں 250 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش موجود تھی۔

اسلام آباد کا بخشی خانہ کہیں اور نہیں بلکہ ایف ایٹ کے کمرشل علاقے میں واقع ہے، جہاں پر ضلعی عدالتوں کے علاوہ دوکانیں اور دفاتر بھی موجود ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کی آبادی بڑھتی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ جرائم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

اس وقت اسلام آباد کی آبادی دو ملین سے بھی زیادہ ہے اور متعقلہ حکام نے جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے تھانوں کی تعداد بڑھائی لیکن بخشی خانے کو نہ تو وسعت دی گئی اور نہ ہی وہاں پر موجود بنیادی سہولتوں میں اضافہ کیا گیا۔

اس بخشی خانے میں صاف پینے کے پانی کی سہولت موجود نہیں ہے اور وہاں پر موجود لیٹرین کی حالت بھی انتہائی ابتر ہے۔ شدید گرم موسم میں یہاں پنکھوں کے نیچے بیٹھنا بھی محال ہو جاتا ہے۔

جیل

اسلام آباد میں اس وقت تھانوں کی تعداد 21 ہے۔

مقامی پولیس کے مطابق اوسطاً روزانہ آٹھ سو سے لے کر ایک ہزار تک قیدیوں کو اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے بخشی خانے میں لایا جاتا ہے۔ ان قیدیوں میں ایف آئی اے کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے ملزمان بھی شامل ہوتے ہیں۔

مقامی پولیس کے مطابق موسم کی شدت اور بخشی خانے میں گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے متعدد قیدی بے ہوش ہو جاتے ہیں جن کو طبی امداد فراہم کی جاتی ہے۔

بخشی خانے کے باہر سیکیورٹی پر تعینات ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ وہ قواعد کے مطابق کسی قیدی کو بخشی خانے کے باہر نہیں رکھ سکتے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں ان کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

اہلکار کے مطابق متعدد پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے ان کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی بھی گئی جنھوں نے انسانیت کی خاطر کچھ قیدیوں کو بخشی خانے میں موجود لاک اپ میں رکھنے کے بجائے بخشی خانے کے اندر رکھے ہوئے بینچز پر بٹھا دیا۔

وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں انڈر ٹرائل قیدیوں کا یہ منصوبہ اگر کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اس کو ملک کے دوسرے علاقوں تک منتقل کرنے کے حوالے سے صوبوں سے تجاویز بھی مانگی جائیں گی۔

وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے قیدیوں کی سیکیورٹی کے لیے پولیس اہلکاروں کی ایک قابل ذکر تعداد کو امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے تعینات کیا جاسکتا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.