40 لاکھ یوٹیوب سبسکرائبرز والے عرفان، جو کبھی ایک رکشہ ڈرائیور تھے

0
0

انڈین ریاست تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والے عرفان جو کبھی ایک آٹو رکشہ چلاتے تھے اب عرفان ویو کے نام سے یوٹیوب پر ایک چینل چلاتے ہیں نہ صرف تمل ناڈو بلکہ ملک بھر میں کھانے کے شوقین افراد کے لیے کسی مشہور شخصیت سے کم نہیں ہیں۔

عرفان چنئی کے رہائشی ہیں۔ سکول اور کالج کے دوسرے طلبہ کی طرح وہ بھی پڑھائی میں اوسط درجے کے طالبعلم تھے۔

وہ ایک متوسط ​​گھرانے میں پلے بڑھے۔ انھیں بچپن سے اداکاری کا شوق تھا اور وہ اس کے ذریعے شہرت حاصل کرنا چاہتے تھے۔

انھوں نے اپنا سفر بطور بلاگر نومبر 2016 میں شروع کیا۔ اس وقت بہت کم لوگ یوٹیوب کی طرف راغب ہوئے تھے۔

عرفان نے عرفان ویو چینل کے لیے بہت محنت کی۔ انھوں نے نوکری چھوڑ دی اور اپنے یوٹیوب چینل کے لیے پوری طرح کام کرنا شروع کردیا۔ آج ان کے چینل کے تقریباً 40 لاکھ سبسکرائبرز ہیں۔

اگر فیس بک اور انسٹاگرام پلیٹ فارم کو بھی شامل کیا جائے تو عرفان کے کل 60 لاکھ فالوورز ہیں۔ یہ تعداد سنگاپور کی کل آبادی کے برابر ہے۔

عرفان اکثر اپنے چینل پر مختلف کھانوں اور فلموں کا جائزہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بیرون ملک سفر بھی کرتے ہیں اور مشہور شخصیات کے انٹرویو بھی لیتے ہیں۔ اس لیے ان کے مداحوں میں نوجوان ہی نہیں بڑے بھی شامل ہیں۔

ایک صبح ہم عرفان سے ان کے دفتر چنئی میں ملے۔ انھوں نے ہم سے اپنے ابتدائی سفر، یوٹیوب چینل کی ترقی، مشہور شخصیات کے انٹرویوز اور حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے بہترین مواد تخلیق کرنے کا ایوارڈ حاصل کرنے کے بارے میں بات کی۔

Irfan

چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے خوابوں کا تعاقب

یوٹیوب چینل سے پہلے عرفان ایک بی پی او کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں مشہور ہونا چاہتا تھا لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے، اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میں نے یوٹیوب چینل شروع کیا۔‘

شروع میں عرفان ہفتے میں ایک ویڈیو بناتے اور پوسٹ کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جو بھی شروع کروں گا، اس پر قائم رہوں گا۔‘

عرفان بتاتے ہیں کہ ’میں سنہ 2016 میں ایک ریستوران میں مینیجر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ چھٹیوں کے دوران میں ویڈیوز بنا کر پوسٹ کرتا تھا، جو بعد میں میری عادت بن گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے اس کام کے لیے اپنی نوکری چھوڑنی پڑی۔ اسے چھوڑ دیا اور یوٹیوب کو مکمل طور پر چلانا شروع کر دیا۔‘

ان کے مطابق ’جب میں نے نوکری چھوڑی تو میرے گھر والوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ اس وقت میری مالی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ مجھے کرایہ ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ مالی تنگی کی وجہ سے گھر میں راشن خریدنے میں دشواری تھی۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ محنت سے سب کچھ ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔‘

عرفان کا کہنا ہے کہ ’نوکری چھوڑنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ہفتے میں ایک ویڈیو بنانے سے کام نہیں چلے گا اس لیے میں نے روزانہ ویڈیوز بنا کر اپنے چینل پر پوسٹ کرنا شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ آج یہاں تک پہنچ گیا۔‘

Irfan

دن میں آٹو رکشا چلانا اور شام کو کالج

عرفان کا کہنا ہے کہ ان کے والد ایک وین ڈرائیور تھے، جن کے پاس اومنی وین اور آٹو رکشہ تھا۔ وہ بچوں کو سکول لے جاتے اور واپس لاتے۔

ان کے مطابق ’اپنے والد کی طرح میں نے بھی تین سال تک آٹو رکشہ ڈرائیور کے طور پر کام کیا۔ میں صبح اور دوپہر میں دو بار بچوں کو سکول چھوڑتا تھا۔ یہ کام ہر روز کرنا پڑتا تھا۔ میں نے ایک اومنی وین بھی چلائی۔‘ عرفان نے یہ مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ کالج میں خود بھی داخلہ بھی لے لیا۔

عرفان کہتے ہیں کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے ایوارڈز ملیں گے۔ پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یوٹیوب کے ذریعے کوئی اتنا کما سکتا ہے۔ میں اکثر محسوس کرتا ہوں کہ اگر میں اداکار ہوتا تو بھی مجھے اتنی شہرت نہ ملتی۔ اب جہاں بھی جاتا ہوں تو میں ایک ’یوٹیوبر‘ کے طور پر جاتا ہوں، مجھے لوگوں سے بہت پیار ملتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اب سکولوں سے لے کر کالجوں تک بطور مہمان مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ مجھے یوٹیوب پر کلاس لینے کے لیے کہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ لوگوں نے مجھے پہچان دی ہے۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.