انڈپنڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پیز) ہمارے قومی خزانے کو کیسے لوٹ رہیں ہیں؟

پاکستان میں نجی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جو بجلی پیدا کرکے معاہدوں کے تحت طے شدہ شرایط اور قیمت کے مطابق حکومت کو بیچتے ہیں یہ پالیسی دراصل حکومت پاکستان نے تقریباً تین دہائیوں سے جاری رکھی ہوئی ہے

پاکستان میں نجی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز
چین کے ساتھ آئ پی پیز پر ایسے معاہدے کئے گئے جو چین کے لئے کافی مفید اور پاکستانی عوام پر بھاری بوجھ ثابت ہوے

گزشتہ ادوارحکومت میں چین کے ساتھ آئ پی پیز پر ایسے معاہدے کئے گئے جو چین کے لئے کافی مفید اور پاکستانی عوام پر بےحد ناقص اور بھاری ثابت ہوے۔ ان معاہدوں کی شرائط کے مطابق حکومت پاکستان ان کمپنیوں کو فکسڈ قیمت پر فیول مہیا کریگا۔ حکومت ان آئ پی پیزسے ڈالر کے حساب سے بجلی خریدیگا۔ اور کمپنیاں جتنی بھی بجلی بنائیں گی۔ حکومت اس کو خریدنے کی پابند ہے۔ چاہے وہ استعمال بھی نہ ہو۔

فکسڈ ریٹ

ان معاہدوں کی شرائط ایک یہ ہے۔ کہ حکومت پاکستان ان کمپنیوں کو فکسڈ قیمت پر فیول یعنی تیل۔ گیس اور کوئلہ دینے کی پابند ہے۔ یعنی فیول اگر مہنگا ہو بھی جائے تو ان کو سبسڈی دی جائیں گی۔ معاہدوں میں یہ بات شامل نہیں کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث بجلی کی پیداواری لاگت کم ہو گی۔ تو کمپنیاں حکومت کو کم نرخوں پر بجلی فراہم کرنے کی پابند ہوں گی سارا منافع، شاید کھربوں میں ہو، ان چائنیز کمپنیوں کو چلا جائیگا۔ حالانکہ تیل کی قیمتوں میں کمی سے جو فائدہ ہو وہ صارفین کو منتقل کرنا چاہیے تھا۔

نہ پاکستانی روپیہ نہ چینی یوان

عجیب بات یہ ہے کہ یہ کمپنیاں حکومت کو جو بجلی بیچے گی وہ ڈالر کے حساب سے بیچے گی۔ یعنی ڈالر جتنا مہنگا ہو گا بجلی اتنی ہی مہنگی ہوگی۔ اور روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں ٹیرف کو بڑھا کر ڈالر کی مہنگی قیمت میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کو خطے میں مہنگی ترین بجلی خریدنی پڑتی ہے۔ بجلی مہنگی تو مطلب دیگر اشیا کی لاگت بھی بھڑ جاتی ہے۔ نتیجتاً عوام کو صرف مہنگی بجلی ہی نہیں بلکہ مہنگائی کی صورت میں بھی خمیازہ بھگ تنا پڑتا ہے۔

جتنی بجلی پیدا ہو حکومت اسے خریدنے کی پابند رہے گی

پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے شعبے میں ملکی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے، تاہم گھریلو اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کے علاوہ باقی بچ جانے والی بجلی کے استعمال نہ ہونے کے باوجود حکومت اس فاضل بجلی کی قیمت ادا کرتی ہے جو نا صرف حکومتی خزانے پر بوجھ ہے بلکہ بجلی کے نرخوں میں کمی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

آئی پی پیز جو بجلی بنا رہے ہیں وہ واپڈا سے بھی سستی ہے۔ کیونکہ ان کے پاس جدید تیکنیک ہے۔ لیکن اس عجیب و غریب معاہدہ کی وجہ سے پاکستان کے پاور سیکٹر کا خسارہ سب سے زیادہ ہے۔ اور اس وجہ سے عوام کو مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ برداشت کرنی پڑتی ہے۔

چينی کمپنياں پاکستان کو انتہائی مہنگی بجلی بيچ رہی ہيں
چينی کمپنياں پاکستان کو انتہائی مہنگی بجلی بيچ رہی ہيں

ہر سال آئی ایم ایف قرضہ دینے سے انکار کر دیتا ہے اس کی بڑی وجہ ان کمپنیوں کو رقم کی عدم ادائیگی ہے۔ جس کی وجہ خسارہ ہے حیرت کی بات یہ ہے۔ کہ ان کمپنیوں کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ منافع میں نقصان ہے۔ یعنی منافع اگر دس روپے ہے۔ تو یہ چھ سے آٹھ روپے منافع لیتے ہیں۔ بہر حال اس کی شکایت ہوتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ہمارے یوٹیلٹی بلز اور ٹیکسز بڑھ جاتے ہیں۔ چونکہ گیس اپنے ملک کی ہے۔ اس میں بچت ہوجاتی ہے۔ لیکن بجلی غیر ملکی کمپنیاں بنا رہی ہیں۔ اس لئے وہ اپنا منافع سود سمیت وصول کرنا چاہتی ہیں۔ ان ظالمانہ معاہدوں کی وجہ سے حالات روز برو خراب ہو رہے ہیں۔ پورے پاکستان کی عوام اب بلوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔

اعدادوشمار کيا کہتے ہيں؟

اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو تیل اور آپریشنز کی مد میں حکومت کی جانب سے ان آئ پی پیز کو خطیر ادائیگیاں کی گیں محظ نو سالوں میں میں چونسٹھ اعشارہ باویس ارب روپے کی ادائیگیاں کی گیں جبکہ آپریشنز کی باقی ماندہ سالوں کے دوران مستقبل میں 145 ارب روپے کی زاید ادائیگیاں بھی کرنی ہوں گی جس سے ادائیگیاں دوسو نو ارب تک جا پہنچے گیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ادائیگیاں آئی پی پیز کو پڑنے والی اصل لاگت سے کہیں گننا زیادہ ہیں ان معاہدوں سے صاف ظاہر ہے کہ ان معاہدوں میں چینی حکومت اپنے مفادات کو ہمارے عوامی احساس پر فوقیت دے رہی ہے اور ان معاہدوں پر پاکستان چینی حکومت سے نظر ثانی کی توقع نہیں رکھتا ہماری عوام کا مزید استحصال کیا جانے کے اثار حالیہ دنوں میں نمودار ہو رہے ہیں جن میں بدستور چینی پاور پلانٹس کی پاکستان میں بجلی کی بندش اور پاور پلانٹس کو بند کر دینے کی دھمکی کی خبریں گردش کرتی نظر آرہی ہیں چینی حکام اور پاور پلانٹس کے مالکان کا کہنا ہے۔ کہ ان کی ادائیگیاں کی جائیں ورنہ پاور پلانٹس کو بند کر دیے جائینگے۔

قرض کا جال

 آئی پی پی کے منصوبوں کے لیے آلات، تعمیراتی مواد اور خدمات یا لیبر سب کچھ چین سے درآمد کیا جانا ہے
آئی پی پی کے منصوبوں کے لیے آلات، تعمیراتی مواد اور خدمات یا لیبر سب کچھ چین سے درآمد کیا جانا ہے

چینی پاور پلانٹ کے کل 21 منصوبے ہیں۔ پاور پلانٹس لگانے کے لیے کمرشل قرضوں کا انتظام 4.5 فیصد شرح سود پر کیا گیا۔ تاہم، یہ ایکویٹی پر مبنی ہیں۔ جو بعض صورتوں میں 34.2 فیصد تک ہے۔ جو پاکستان کی معیشت سے چینی معیشت کو 11.3 بلین ڈالر کے اخراج کا سبب بنے گی۔


ان چینی آئی پی پیز کے بارے میں کچھ دلچسپ اور چونکا دینے والے حقائق یہ ہیں۔ کہ آئی پی پی کے منصوبوں کے لیے آلات، تعمیراتی مواد اور خدمات یا لیبر سب کچھ چین سے درآمد کیا جانا ہے۔ مزید برآں، پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی اکثریت کا صدر دفتر چین میں ہے۔ جو بینک ان چینی کمپنیوں (سرمایہ کاروں) کو پاکستان کے پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے اربوں ڈالر فراہم کررہے ہیں وہ بھی چینی ہیں۔
اور یہ پرائیویٹ بینک نہیں بلکہ سرکاری چینی بینک ہیں۔ خاص طور پر ایگزم بینک آف چائنا اور چائنا ڈیولپمنٹ بینک۔

چينی بينک

چینی پاور انرجی پراجیکٹس کے معاہدے کے مطابق، حکومت پاکستان قانونی طور پر چینی مالیاتی اداروں (بنیادی طور پر سرکاری بینکوں) کو سرمایہ کاروں (جو چینی کمپنیاں ہیں) کے ذریعے قرض کی ادائیگی کے لیے غیر ملکی کرنسی (ڈالر) کی فراہمی کو یقینی بنانے کی پابند ہے۔
اس طرح پاکستان سے ڈالر چین میں داخل ہوں گے جو پاکستانی حکومت ان چینی آئی پی پیز کو فراہم کرنے کی قانونی طور پر پابند ہے۔ تاکہ وہ چین کے سرکاری بینکوں کو قرض واپس کر سکیں
بالآخر، ملک پہلے ہی ڈالر کے ذخائر کی کمی کا شکار ہے۔ — پاکستان — چینی معیشت میں خاطر خواہ رقم ڈالے گا۔ اور خود پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور چین سے مدد مانگنے پر مجبور ہو گا۔ جیسا کے آج کل سننے میں آرہا ہے۔

چينی قرضے
چين پاکستان کو جو قرضے دے رہا ہے وہ بہت زیادہ شرح سود پر ہے

چینی سرمایہ کاری کو گردشی قرضے کے کسی بھی منفی اثرات سے بچانے کے لیے، دو طرفہ معاہدے میں بظاہر یہ شرط بھی شامل ہے۔ جو اس بات کو یقینی بناتی ہے۔ کہ پاور پراجیکٹ کے کمرشل آپریشنز کے ایک ماہ کے اندر ایک پاکستان ان کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرائے گا۔ جو متعلقہ پاور پروجیکٹس کے لیے ماہانہ ادائیگیوں کی 22 فیصد سے کم نہیں ہو گی

اب ہم یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر چین ایسا کیوں کرتا ہے؟

چینی حکومت پاکستان کو انفراسٹرکچر کے لیے اربوں ڈالر کا قرض دے رہی ہے – یہ مفت نہیں – یہ بہت زیادہ شرح سود پر ہے۔ پاکستان پھر اسی ڈالر کا استعمال کرتے ہوئے چین سے سامان، خام مال اور لیبر درآمد کرتا ہے اور قرضوں کی ادائیگی بھی۔ چنانچہ جو چیز چین سے آتی ہے وہ بڑے مفادات کے ساتھ واپس چین کو ادا کر دی جاتی ہے

مزید برآں، جہاں تک بجلی کے منصوبوں کا تعلق ہے – جو قرضوں کے پورے جال کا بڑا حصہ ہیں – چینی سرکاری بینک چینی سرمایہ کاروں کو اربوں ڈالر کے قرضے فراہم کر رہے ہیں، جو ان ڈالروں کو پاکستان کے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، اور واپسی پر، وہ ڈالر (ڈیویڈنڈ) کی شکل میں منافع سے حصہ حاصل کرتے ہیں۔ نیز، حکومت پاکستان قانونی طور پر ان چینی سرمایہ کاروں کے لیے ڈالر کی دستیابی کو یقینی بنانے کی پابند ہے تاکہ وہ چین کے سرکاری بینکوں سے لیے گئے قرضے واپس کر سکیں۔

چينی قرضے

اور اس طرح پاکستان چینی گردشی قرضہ کا شکار ہو چکا ہے۔ جس قرضے کی ادائیگی نہ کرنے پر اب چینی پاور پلانٹس پاکستان کی بجلی بند کر دینے کا عندیہ اور دھمکی دے رہے ہیں۔
اصل میں جو معاہدے عوام کو ریلیف دینے کے لئے بناے گئے۔ وہ صرف چین کے مفاد میں نکلے نہ تو بجلی کی پیداواری لاگت میں کوئی کمی آسکی اور نہ ہی ترسیلی شعبے میں کوئی اسلحات ہو سکیں نتیجتاً لائن لاسز میں نہ تو کمی ہوئی اور نہ ہی کیش فلو میں بہتری آئی ہماری عوام آج بھی مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہے۔ اور پیداواری لاگت مہنگی ہونے سے مہنگائی کے شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان حکومت کے چین کے ساتھ غلط معاہدے ہماری عوام کا استحصال اور عوامی ترقی کا ضامن نہ بن سکے عام آدمی کی بدحالی پاکستان کی بدحالی ہے

سدباب کيا ہے؟

ان سب حالات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا درست ہو گا۔ کہ اب چین کے آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے ہونے چاہئے جوپاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد میں ہوں۔ تاکہ ملک قرضوں اور خساروں کے بوجھ سے نکلے اور جو عوام بھوک اور افلاس سے مر رہی ہے۔ انہیں کھانے پینے، ادویات اور دوسری ضروری اشیاء میں سبسڈیز دی جائے۔ جو ہر طبقے کو برابری سے ملے، اس میں نہ امیر کی تخصیص ہو نہ غریب کی ورنہ لوگ ایسے ہی روتے تڑپتے رہیں گے۔ اور ملک میں افراتفری رہے گی۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.