ملک میں نوجوانوں مردوں اور عورتوں کو بچوں کی پیدائش کے لیے راغب کرنے کی غرض سے جنوبی کوریا. کی ایک پرائیوٹ کمپنی نے اپنے ملازمین کو 75 ہزار کورین ڈالر (یعنی تقریباً دو کروڑ پاکستانی روپے) دینے کی پیشکش کی ہے۔
’بو ینگ‘ نامی کمپنی نے یہ. اعلان ایک ایسے وقت میں کیا. جب کورین حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلا کہ ملک میں بچوں کی پیدائش کی شرح ریکارڈ تنزلی کا شکار ہے۔
جنوبی کوریا میں بچوں کی پیدائش کی شرح پہلے سے ہی دنیا میں سب سے کم تھی. تاہم اب صورتحال مزید گھمبیر ہو رہی ہے۔
سٹیٹیسٹکس کوریا
بدھ کو سرکاری ادارے ’سٹیٹیسٹکس کوریا‘ کے ذریعے جاری کیے گئے. اعداد و شمار کے مطابق بچوں کی پیدائش کی شرح اب. مزید گھٹ کر 0.72 پر آ گئی ہے. جو کہ سنہ 2022 میں 0.78 تھی۔
دارالحکوت سئیول میں تو یہ اور بھی کم ہے۔ وہاں یہ شرح محض 0.55 ہے۔
کوریا میں اس گھٹتی ہوئی شرح پیدائش کے بارے میں سیاسی سطح پر اس لیے بھی تشویش بڑھتی جا رہی ہے. کہ مختلف حکومتوں نے اسے بڑھانے کے لیے سنہ 2006 سے بچوں کے پالنے. پوسنے، نوبیاہتا جوڑوں کو رعایتی مکانات دینے اور دوسرے متعلقہ بہبودی پروگراموں پر 270 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔
حکومت نے گھٹتی ہوئی آبادی. کے رحجان کو پلٹنا قومی ترجیح بنا رکھا ہے۔
بیشتر ملکوں کی طرح جنوبی کوریا میں بھی بچے پیدا کرنے کے لیے شادی شدہ ہونا پہلی ضرورت ہے۔ لیکن شادی شدہ زندگی شروع کرنے کے لیے بہت زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے. جس کے سبب نوجوان جوڑوں میں شادی نہ کرنے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔
جنوبی کوریا میں بچے پیدا کرنے پر کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟
سٹیٹیسٹکس کوریا کے تخمینے کے مطابق تمام حکومتی کوششوں کے باوجود سنہ 2025 میں ملک میں شرح پیدائش مزید گھٹ کر 0.65 پر آ جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بڑا سبب خواتین کی مشکلات ہیں۔ اگر وہ بچہ پیدا کرنے کے ساتھ کام بھی کرنا چاہتی ہیں تو اُن کے اوپر بے پناہ سماجی دباؤ ہوتا ہے اور انھیں ملازمت میں شدید تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
30 سالہ یجین ایک ٹی وی پروڈیوسر ہیں جنھوں نے شادی نہیں کی۔ وہ دارالحکومت سیئول کے نواح میں واقع اپنے اپارٹمنٹ میں اپنی ہم عمر دوستوں کے لیے کھانا بنا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک دوست نے اپنے فون پر ایک ڈائنوسار کا ایک کارٹون کھولا جس میں ڈائنوسار کہتا ہے: ’خبردار ہو جائیں! آپ ہماری طرح اپنا وجود نہ کھوئیں۔‘
اس پر سبھی ہنس دیے۔ یجین کہا کہ ’یہ ہنسی کی بات ہے لیکن یہ ایک تلخ سچائی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم خود اپنے وجود کے خاتمے کا سبب بن سکتے ہیں۔‘
یجین کی ہی طرح ان کی سبھی دوستیں بھی غیر شادی شدہ ہیں۔ جنوبی کوریا میں ایسے نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو مالی وجوہات کی بنا پر شادی نہیں کرنا چاہتے۔ اور جو شادی شدہ ہیں ان میں سے بہت سے جوڑے بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
2250 کورین ڈالر
بچے پیدا کرنے کے لیے کورین حکومت کی طرف سے جو ترغیبی اقدامات کیے گئے ہیں ان میں سے ایک قدم یہ بھی ہے کہ ہر بچے کی پیدائش پر حکومت 2250 کورین ڈالر ’بے بی پیمنٹ‘ کے نام پر بچے کے والدین کو دیتی ہے۔
گھٹتی ہوئی آبادی کا بحران اتنا گہرا ہے کہ اگر یہ شرح اسی طرح جاری رہی تو آئندہ 50 برس میں جنوبی کوریا میں کام کرنے والوں کی تعداد آدھی رہ جائے گی۔ یعنی ملک کی نصف آبادی ریٹائرمنٹ کی عمر میں داخل ہو جائے گی یعنی نصف آبادی 65 سال سے زیادہ کی ہو گی۔