احمد علی اکبر: ’پری زاد کے بعد اشتہارات میں کام ملنا کم ہو گیا‘

پاکستانی اداکار احمد علی اکبر کا کہنا ہے کہ اُن کے مقبول ترین کردار ’پری زاد‘ کے بعد اگرچہ انھیں ڈراموں میں تو کام بدستور پہلے ہی کی طرح مل رہا ہے مگر اشتہاروں میں انھیں کام ملنا کم ہو گیا کیونکہ شاید ’پری زاد‘ کی سانولی رنگت برینڈز کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔

بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو میں احمد علی نے کہا کہ ’اشتہارات کی دنیا‘ میں انھیں کام ملنا کم ہو گیا کیونکہ ’شاید پری زاد اُن کے برینڈز کے ساتھ نہیں جاتا مگر دوسری جانب (ڈراموں میں) جس طرح پہلے کام آفر ہوتا تھا ویسا ہی ابھی ہوتا ہے۔‘

’میرے خیال سے انڈسٹری میں لوگوں کو پہلے سے پتا ہے کہ میں سکرپٹ کا انتخاب کرنے سے پہلے بہت زیادہ سوچتا ہوں۔ اسی لیے لوگ مجھے ہمیشہ ایسے ہی سکرپٹ آفر کرتے ہیں جو میں کرنا چاہتا ہوں، جس پر میں ان کا احترام کرتا ہوں۔‘

احمد اس وقت ڈرامہ سیریل ’ایڈیٹ‘ میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ احمد کی ڈرامے ’پری زاد‘ کے لیے، جس میں انھوں نے سانولی رنگت والے ہیرو کا کردار ادا کیا، کافی پذیرائی ہوئی۔

پری زاد کی مقبولیت کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ شیئر کرتے ہوئے احمد نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک خاتون ان سے ملنے آئیں اور کہنے لگیں ’آپ نے پری زاد میں جو کردار ادا کیا، وہ میرے دل کی آواز تھی۔ وہ خاتون میرے سامنے رونے لگیں، میں بھی رویا۔‘

پری زاد

’کچھ لوگ ایسے بھی آئے جنھوں نے مجھے اتنی زور سے گلے لگایا کہ گردن میں بل پڑ گیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ پری زاد کے کردار نے ہماری زندگی بدل دی۔‘

احمد علی نے کہا کہ ’پری زاد کا کردار ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ اس کردار کی کچھ چیزیں پہلے سے میرے اندر تھیں۔ شاید اسی لیے میں اس کردار کو بہت اچھے سے سمجھ سکا۔‘

احمد علی اکبر

ڈرامہ سیریل ’ایڈیٹ‘ میں بھی احمد ایک غیر روایتی لڑکے ’گلزار‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں جو اصولوں کو چیلنج کرتا ہے۔

’گلزار جانوروں سے بہت پیار کرتا ہے اور مجھے ایک جانور کے ساتھ پرفارم کرنا بہت اچھا لگا۔ میں خود بھی ایک مختلف کردار کرنا چاہتا تھا، جو مجھے اور معاشرے دونوں کو چیلنج کرے۔ میرے خیال سے اس کردار نے تھوڑا بہت چیلنج کیا بھی۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ بچوں نے اس کردار کو بہت انجوائے کیا۔‘

احمد نے اس بارے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کردار میں کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جو غیر حقیقی ہیں۔

’میں نے اس کردار کو اُس رُخ پر نبھانے کی کوشش کی کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ سخت اور ضدی ہے تو اس کو زندگی میں جھٹکا لگنا کتنا ضروری ہے۔‘

اُتار چڑھاﺅ

وہ کہتے ہیں کہ ’زندگی میں بہت سے موڑ آتے ہیں۔ آپ کسی موڑ پر گرتے ہیں، کسی پر آگے بڑھتے ہیں۔ یہ سلسلہ تو ابھی تک جاری ہے۔ مزے کی بات یہ ہے جو کردار ہم سکرین پر ادا کرتے ہیں وہ بھی ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتے ضرور ہیں۔ میں نے اب تک اپنے ہر کردار سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ میں اپنے اس سفر کو بہت اچھے سے انجوائے کر رہا ہوں۔ گذشتہ چند برسوں میں جتنا بھی اُتار چڑھاﺅ آیا، اس سے میں نے بہت سیکھا۔‘

احمد کے فینز بہت جلد انھیں بڑے پردے پر نئی آنے والی فلم ’گنجل‘ میں دیکھیں گے. جو 15 دسمبر کو پاکستان بھر میں ریلیز ہو رہی ہے۔

اس فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد کا کہنا تھا. کہ جب ڈائریکٹر شعیب سلطان نے انھیں بتایا کہ یہ فلم اقبال مسیح کی کہانی سے متاثر ہے تو اس میں ان کی دلچسپی پیدا ہوئی۔

احمد

’مجھے ڈائریکٹر نے بتایا کہ یہ فلم اقبال مسیح کی زندگی، سرگرمیوں اور موت پر مبنی ہے۔ کسی سچی کہانی پر کام کرنے کا میرے لیے اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں تھا۔ بنیادی طور پر جن لوگوں کو اقبال کی کہانی کا نہیں پتا، وہ اس فلم کو دیکھنے ضرور جائیں۔ اقبال نے بچوں کی جبری مشقت کے خلاف آواز بلند کی تھی کیونکہ وہ خود اس چیز کا شکار تھے۔‘

انٹرنیشنل فلم فیسٹیول

احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پیرس کے شہر بارسلونا میں اکتوبر میں ’گنجل‘ کی سکریننگ کے بعد لوگوں نے فلم کو بہت سراہا اور پیرس میں اس فلم کو بیسٹ سکرین پلے کا ایوارڈ بھی ملا ہے۔

یاد رہے کہ ’گنجل‘ اگلے ماہ ہونے والے جے پو ر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی ہے۔

حال میں احمد نے بڑے اور چھوٹے پردے پر جتنے کردار نبھائے وہ کافی سنجیدہ اور حساس نوعیت کے ہیں۔ کیا یہ ان کی اپنی مرضی سے ہے یا وہ ٹائپ کاسٹنگ کا شکار ہیں؟

اس سوال کے جواب میں احمد نے کہا کہ ’یہ تو وقت بتائے گا. کہ انڈسٹری ٹائپ کاسٹ کرتی ہے یا نہیں کیونکہ میری توجہ صرف کہانی پر ہوتی ہے، آگے وہ کیسی نکلتی ہے اس پر تو میرا کنٹرول نہیں۔‘

’میں اس عمل کا چھوٹا سا حصہ ہوں۔ کامیڈی میری طاقت ہے لیکن اس کو لکھنا اور اچھے سے سکرین پر ادا کرنا بہت مشکل کام ہے۔ مجھے جب بھی کامیڈی والا سکرپٹ آفر ہو گا. تو میں اس کو سکرین پر بہت اچھے سے ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.